موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الرَّضَاعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ)
حکم : صحیح
1196 . حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَ عَمِّي مِنْ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ عَمُّكِ قَالَتْ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ قَالَ فَإِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ كَرِهُوا لَبَنَ الْفَحْلِ وَالْأَصْلُ فِي هَذَا حَدِيثُ عَائِشَةَ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ
جامع ترمذی:
كتاب: رضاعت کے احکام ومسائل
(باب: دودھ کی نسبت مردکی طرف ہوگی
)مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
1196. ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں: میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں‘‘، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا: ’’تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱ ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے انہوں نے لبن فحل (مرد کے دودھ ) کو حرام کہا ہے۔ اس باب میں اصل عائشہ کی حدیث ہے۔۳۔ اور بعض اہل علم نے لبن فحل (مرد کے دودھ) کی رخصت دی ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔