Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: The Hadith: "Indeed The World Is Cursed")
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2512.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بیشک دنیا ملعون ہے اورجوکچھ دنیامیں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیزکے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اورمتعلم (علم سیکھنے والے) کے‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکرالٰہی سے غافل کردینے والی ہوں، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اورلذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے، بصورت دیگر یہی مال برااورلعنت کے قابل ہے، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کردے بصورت دیگریہ بھی برا ہے، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 6 / 703 :
أخرجه الترمذي ( 2323 ) و ابن ماجه ( 4112 ) و الأصبهاني في " الترغيب " ( ق
223 / 2 ) من طريق ابن ثوبان عن عطاء بن قرة عن عبد الله بن ضمرة السلولي قال :
حدثنا أبو هريرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : فذكره ، و
قال الترمذي : " حديث حسن غريب " . قلت : و هو كما قال أو قريب منه ، و قد أقره
المنذري في " الترغيب " ( 1 / 56 ) ، فإن رجاله كلهم ثقات معروفون غير عطاء بن
قرة ، وثقه ابن حبان في " أتباع التابعين " ( 7 / 252 ) لكن قد ذكر في "
التهذيب " أنه روى عنه جمع من الثقات ، منهم الأوزاعي و الثوري ، فكأنه لذلك
قال في " التقريب " : " صدوق يخطىء " . فهو حسن الحديث إن شاء الله تعالى ، و
يؤيده قول الذهبي في " المغني " : " صدوق " . أخرجه الترمذي من طريق علي بن
ثابت - و هو الجزري - و الآخران من طريق أبي خليد عتبة بن حماد ، كلاهما عن ابن
ثوبان - و هو عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان - به . و خالفهما أبو المطرف المغيرة
بن المطرف قال : حدثنا ابن ثوبان عن عبدة بن أبي لبابة عن أبي وائل عن ابن
مسعود مرفوعا به . أخرجه البزار ( 4 / 108 / 3310 ) و الطبراني في " الأوسط " (
رقم 4248 - نسختي ) و قال : " لم يروه عن ابن ثوبان عن عبدة إلا أبو المطرف ..
و روى غيره عن ابن ثوبان عن عطاء بن قرة عن عبد الله بن ضمرة عن أبي هريرة " .
قلت : و هذا أصح لاتفاق الصدوقين عليه ، و لأن أبا المطرف هذا غير معروف في كتب
الرجال ، ثم رأيت الدارقطني قد سبقني إلى هذا ، فقال في " العلل " ( 5 / 89 ) :
" و هو الصحيح " . و قال الهيثمي ( 1 / 122 ) : " لم أر من ذكره " . قلت :
أورده بحشل في " تاريخ واسط " ( 181 ) و ذكر له أثرا من رواية وهب بن بقية . و
قال الذهبي في " المقتنى " : " واه " . و لفظ البزار : " إلا أمرا بمعروف أو
نهيا عن المنكر " . و للحديث شاهد من حديث جابر مرفوعا به ، إلا أنه قال : " ..
إلا ما كان منها لله عز وجل " . أخرجه أبو نعيم في " الحلية " ( 3 / 157 و 7 /
91 ) و الأصبهاني ( ق 143 / 2 ) و البيهقي في " الشعب " ( 7 / 341 / 10512 ) من
طريقين عن عبد الله بن الجراح : حدثنا عبد الملك بن عمرو العقدي حدثنا سفيان بن
سعيد عن محمد [ بن المنكدر ] عنه ، و قال أبو نعيم : " غريب من حديث محمد و
الثوري تفرد به عبد الله بن الجراح " . قلت : : قال الذهبي في " الكاشف " : "
ثقة " . و قال الحافظ في " التقريب " : " صدوق يخطىء " . و هذا أقرب إلى مجموع
أقوال المتقدمين فيه ، فهو حسن الحديث إن شاء الله تعالى ، و ذكره ابن أبي حاتم
في " العلل " ( 2 / 124 ) من طريقه ، و قال عن أبيه : " هذا خطأ ، إنما هو محمد
بن المنكدر أن النبي صلى الله عليه وسلم " . يعني أنه مرسل . و لم يبين السبب ،
و على التسليم به هو شاهد حسن مسندا و مرسلا . و شاهد آخر ، يرويه محمد بن وضاح
: أخبرنا عبد الملك بن حبيب المصيصي أخبرنا ابن المبارك عن ثور بن يزيد عن خالد
بن معدان عن أبي سعيد الخدري مرفوعا بلفظ : " .. إلا ما كان فيها من ذكر الله ،
أو آوى إلى ذكر الله ، و العالم و المتعلم شريكان في الأجر ، و سائر الناس همج
لا خير فيه " . أخرجه ابن عبد البر في " جامع بيان العلم و فضله " ( 1 / 27 ) و
أعله بالوقف فقال : " هكذا رواه عبد الملك بن حبيب المصيصي عن ابن المبارك
مسندا ، و رواه عبد الله ابن عثمان عن ابن المبارك عن ثور عن خالد بن معدان من
قول أبي الدرداء " . ثم ساقه بإسناده إلى عبد الله بن عثمان به موقوفا . و
تابعه عبد الرزاق عند البيهقي في " الشعب " ( 7 / 342 ) . قلت : و عبد الله بن
عثمان هو الحافظ الثقة الملقب بـ ( عبدان ) ، و قد تابعه الحسين المروزي فرواه
في " الزهد " ( 191 / 543 ) : أخبرنا ابن المبارك به . و هذا أصح مما قبله ،
لأن المصيصي مع مخالفته لعبدان و الحسين المروزي فهو مجهول الحال لم يوثقه أحد
، على أنه مع وقفه فهو منقطع بين خالد و أبي الدرداء . و قد جاءت هذه الزيادة "
و العالم و المتعلم شريكان في الأجر .. " مرفوعة من طرق أخرى عن أبي الدرداء و
غيره .. و لكنها واهية كما بينته في " إرواء الغليل " ( 414 ) . ( تنبيه ) :
عزا السيوطي الحديث في " الجامعين " لابن ماجه فقط عن أبي هريرة ، و " أوسط "
الطبراني عن ابن مسعود . و لم يتكلم المناوي على إسناد أبي هريرة ، و إنما على
إسناد ابن مسعود ، و لم يزد فيه على أن نقل عن الهيثمي قوله المتقدم في راويه
أبي المطرف : " لم أر من ذكره " . هذا في " الفيض " ، و أما في " التيسير " فقد
زاد في توضيح الإيهام ، فقال : " رمز المؤلف لصحته ، و ليس كما قال ، إذ فيه
مجهول " ! قلت : و فيه ما يلي و إن أقرته لجنة " الجامع الكبير " ( 55 - 10703
) ! أولا : أوهم أن المجهول في إسناد حديث أبي هريرة أيضا ، و ليس كذلك كما سبق
. ثانيا : أن رموز السيوطي في " الجامع الصغير " لا قيمة لها ، كما نبهنا عليه
مرارا ، و شرحته في مقدمة " ضعيف الجامع " و " صحيح الجامع " ، و قد نبه
المناوي نفسه على شيء منه في مقدمة " الفيض " . ثالثا : أوهم أن الحديث ضعيف ،
و ليس كذلك بالنظر إلى طريق أبي هريرة ، فهو حسن كما تقدم ، و يزداد قوة بحديث
جابر ! و الله أعلم . قلت : و من جناية ( الهدام ) على السنة تضعيفه لهذا
الحديث ، في تعليقه على " إغاثة اللهفان " ، و تصدير تخريجه إياه بقوله ( 1 /
56 ) : " ضعيف : و لعله قول لبعض السلف " !! فيقال له : اجعل ( لعل ) عند ذاك
الكوكب ، فإن جل طرقه مرفوعة ، و أولها حسن لذاته ، و نحوه حديث جابر ، و لكن
الرجل مبتلى بالشذوذ العلمي !
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2508
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2322
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2322
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بیشک دنیا ملعون ہے اورجوکچھ دنیامیں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیزکے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اورمتعلم (علم سیکھنے والے) کے‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکرالٰہی سے غافل کردینے والی ہوں، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اورلذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے، بصورت دیگر یہی مال برااورلعنت کے قابل ہے، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کردے بصورت دیگریہ بھی برا ہے، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Abu Hurairah (RA) reported that Allah;s Messenger (ﷺ) say, “ The world is accursed, and accursed is whatever it contains except mention of Allah, that which is dear to Him and the scholar or the student” [ Ibn e Majah 4112]