Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: What Has Been Related About What Is Sufficient And Being Patient With It)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2541.
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر کفاف اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئے ہوئے پر) قانع بنا دیا‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: آخرت کی کامیابی کا دارومدارصرف اورصرف اسلام ہے، اگر بدقسمتی سے کسی کا دامن دولت اسلام سے خالی رہا تو دنیا بھر کے خزانے اسے اخروی کامیابی سے ہمکنارنہیں کرسکتے، اسی طرح بقدرضرورت اوربرابرسرابر والی زندگی میں جو امن وسکون میسر ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، گویا بقدرکفاف روزی کے ساتھ قناعت واستغنا کا مل جانا امن وسکون کی ضمانت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 201 :
رواه مسلم ( 3 / 102 ) و الترمذي ( 2 / 56 ) و أحمد ( 2 / 168 ) و البيهقي
( 4 / 196 ) من طريق عبد الله بن يزيد المقرىء حدثنا سعيد بن أبي أيوب حدثني
شرحبيل بن شريك عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن عبد الله ابن عمرو بن العاصي
مرفوعا .
و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح " .
و رواه ابن ماجه ( 4138 ) عن ابن لهيعة عن عبيد الله بن أبي جعفر ، و حميد
ابن هانىء الخولاني أنهما سمعا أبا عبد الرحمن الحبلي يخبر عن عبد الله
ابن عمرو به نحوه .
و ابن لهيعة سيء الحفظ ، لكن لا بأس به في المتابعات .
( تنبيه ) :
---------
عزاه السيوطي في " الصغير " و " الكبير " ( 2 / 95 / 1 ) لمسلم و من ذكرنا معه
غير البيهقي فتعقبه المناوي بقوله : " تبع في العزو لما ذكر عبد الحق .
قال في " المنار " : و هذا لم يذكره مسلم و إنما هو عند الترمذي .. " .
قلت : و هذا وهم من صاحب " المنار " ثم المناوي ، فالحديث في المكان الذي أشرنا
إليه من مسلم : في " كتاب الزكاة " .
و في الحديث فضل الكفاف و القناعة به ، و مثله الحديث الآتي :
" اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا " .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2537
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2348
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2348
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر کفاف اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئے ہوئے پر) قانع بنا دیا‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: آخرت کی کامیابی کا دارومدارصرف اورصرف اسلام ہے، اگر بدقسمتی سے کسی کا دامن دولت اسلام سے خالی رہا تو دنیا بھر کے خزانے اسے اخروی کامیابی سے ہمکنارنہیں کرسکتے، اسی طرح بقدرضرورت اوربرابرسرابر والی زندگی میں جو امن وسکون میسر ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، گویا بقدرکفاف روزی کے ساتھ قناعت واستغنا کا مل جانا امن وسکون کی ضمانت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Abdullah ibn Amr (RA) reported that Allah’s Messenger (ﷺ) said, “He has succeeded who has submitted to Islam, given enough provision with which Allah has made him content.” [Ahmed 6583, Muslim 1054, Ibn e Majah4138]