Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: What Has Been Related About What Is Sufficient And Being Patient With It)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2542.
فضالہ بن عبید ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر کفاف روزی ملی پھروہ اسی پر قانع ومطمئن رہا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲۔ ابوہانی کانام حمید بن ہانی ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 10 :
أخرجه الحاكم ( 4 / 122 ) من طريق ابن وهب عن أبي هاني الخولاني عن أبي علي
الجنبي - و هو عمرو بن مالك - عن فضالة بن عبيد رضي الله عنه أنه سمع رسول
الله صلى الله عليه وسلم يقول : فذكره . و قال : " صحيح الإسناد " . و وافقه
الذهبي . و هو كما قالا . و أخرجه الترمذي ( 2 / 56 ) و ابن حبان ( 2541 )
و الحاكم ( 1 / 35 ) و كذا ابن المبارك في " الزهد " ( 553 ) و من طريقه
القضاعي في " مسنده " ( ق 52 / 1 ) و أحمد ( 6 / 19 ) من طريق حيوة بن شريح :
أخبرني أبو هاني ... بلفظ : " طوبى لمن هدي ... " الحديث . و قال الترمذي :
" حديث حسن صحيح " . و قال الحاكم : " صحيح على شرط مسلم " . و وافقه الذهبي .
و أقول : الصواب : أنه صحيح فقط كما قالا في الرواية الأولى ، فإن عمرو بن مالك
لم يخرج له مسلم شيئا . و له شاهد يرويه حسام بن مصك عن ثابت عن أنس بن مالك
مرفوعا بلفظ : " طوبى لمن أسلم و كان عيشه كفافا " . أخرجه أبو عبد الله الرازي
في " مشيخته " ( ق 26 / 2 ) . لكن حسام هذا قال الحافظ : " ضعيف يكاد أن يترك "
. و له شاهد آخر صحيح بنحو الرواية الأولى من حديث عبد الله بن عمرو مرفوعا
و قد مضى تخريجه برقم ( 129 ) و ذكرنا له هناك ثلاث طرق لا تجدها في كتاب آخر .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2538
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2349
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2349
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
فضالہ بن عبید ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر کفاف روزی ملی پھروہ اسی پر قانع ومطمئن رہا‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲۔ ابوہانی کانام حمید بن ہانی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidinah Fadalah ibn Ubayd reported that he heard Allah’s Messenger (ﷺ) say, “Blessed is he who is guided to Islam and his sustenance is enough and he shows contentment.’ [Ahmed 2399]