باب: نبی اکرمﷺ اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی معاشی زندگی کابیان
)
Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: What Has Been Related About The Subsistence of the Prophet (s.a.w) And His Family)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2555.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ دعاکی (اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا) اے اللہ! محمدﷺ کے گھروالوں کوصرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقراررہ سکے۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: آپ ﷺایسی زندگی گزارنا پسندکرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اورآرام وآسائش سے پاک ہو، کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں، مشاغل اورزیب وزینت سے ہٹاکرآخرت کی طرف متوجہ کریں، اسی لیے آﷺ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی، آپ کی اس دعا سے علماء اورداعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرناچاہئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اوردنیاوی تکلفات سے پاک ہو، اگراللہ ہمیں مال ودولت سے نوازے تومالدارصحابہ کرام کاکردارہمارے پیش نظرہونا چاہئے تاہم مال ودولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے اورنہ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ وہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہئے خواہ اس حربے اورہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑمیں ہی کیوں نہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 202 :
أخرجه البخاري ( 4 / 222 ) و مسلم ( 3 / 103 ، 8 / 217 ) و أحمد ( 2 / 232 )
من طرق عن محمد بن فضيل عن أبيه عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن
أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
و اللفظ لمسلم ، و كذا أحمد إلا أنه قال : " بيتي " بدل " محمد " .
و لفظ البخاري : " اللهم ارزق آل محمد قوتا " .
و يؤيد اللفظ الأول أن الأعمش رواه عن عمارة بن القعقاع به .
أخرجه مسلم و الترمذي ( 2 / 57 - بولاق ) و ابن ماجه ( 4139 ) و البيهقي
( 7 / 46 ) من طرق عن وكيع : حدثنا الأعمش به .
و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح " .
و أخرجه مسلم من طريق أبي أسامة قال : سمعت الأعمش به إلا أنه قال : " كفافا "
بدل " قوتا " .
و كذلك رواه القاسم السرقسطي في " غريب الحديث " ( ج 2 / 5 / 2 ) عن حماد
ابن أسامة قال : حدثنا الأعمش به إلا أنه قال :
" رزقي و رزق آل محمد كفافا " .
فقد اختلف في متنه على الأعمش ، و الرواية الأولى التي رواها مسلم أرجح عندي
لموافقتها لرواية بعض الرواة عن الأعمش . و الله أعلم .
( تنبيه ) :
----------
أورد السيوطي الحديث في " الجامع الصغير " بلفظ مسلم و بزيادة :
" في الدنيا " و عزاه لمسلم و الترمذي و ابن ماجه ، و كذلك أورده في
" الجامع الكبير " ( 1 / 309 ) من رواية هؤلاء الثلاثة و كذا أحمد و أبي يعلى
و البيهقي . و لا أصل لها عند أحد منهم إلا أن تكون عند أبي يعلى ، و ذلك مما
أستبعده ، فإن ثبتت عنده فهي زيادة شاذة بلا شك لمخالفتها لرويات الثقات الحفاظ
. و الله أعلم .
فائدة الحديث
--------------
فيه و في الذي قبله دليل على فضل الكفاف ، و أخذ البلغة من الدنيا و الزهد فيما
فوق ذلك ، رغبة في توفر نعيم الآخرة ، و إيثارا لما يبقى على ما يفنى ، فينبغي
للأمة أن تقتدي به صلى الله عليه وسلم في ذلك .
و قال القرطبي :
معنى الحديث أنه طلب الكفاف ، فإن القوت ما يقوت البدن و يكف عن الحاجة ، و في
هذه الحالة سلامة من آفات الغنى و الفقر جميعا . كذا في " فتح الباري "
( 11 / 251 - 252 ) .
قلت : و مما لا ريب فيه أن الكفاف يختلف باختلاف الأشخاص و الأزمان و الأحوال ،
فينبغي للعاقل أن يحرص على تحقيق الوضع الوسط المناسب له ، بحيث لا ترهقه
الفاقة ، و لا يسعى وراء الفضول الذي يوصله إلي التبسط و الترفه ، فإنه في هذه
الحال قلما يسلم من عواقب جمع المال ، لاسيما في هذا الزمان الذي كثرت فيه
مفاتنه ، و تيسرت على الأغنياء سبله .
أعاذنا الله تعالى من ذلك ، و رزقنا الكفاف من العيش .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2551
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2361
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2361
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ دعاکی (اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا) اے اللہ! محمدﷺ کے گھروالوں کوصرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقراررہ سکے۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: آپ ﷺایسی زندگی گزارنا پسندکرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اورآرام وآسائش سے پاک ہو، کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں، مشاغل اورزیب وزینت سے ہٹاکرآخرت کی طرف متوجہ کریں، اسی لیے آﷺ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی، آپ کی اس دعا سے علماء اورداعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرناچاہئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اوردنیاوی تکلفات سے پاک ہو، اگراللہ ہمیں مال ودولت سے نوازے تومالدارصحابہ کرام کاکردارہمارے پیش نظرہونا چاہئے تاہم مال ودولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے اورنہ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ وہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہئے خواہ اس حربے اورہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑمیں ہی کیوں نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Abu Hurayrah reported that Allah’s Messenger (ﷺ) prayed (O Allah, let the provision of the family of Muhammad be enough for subsistence). [Bukhari 6460, Muslim 1055, Ibn e Majah4139, Ahmed 10241]