Tarimdhi:
Chapters On Zuhd
(Chapter: What Has Been Related About Protecting The Tongue)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
2607.
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھرکی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو‘‘۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تشریح:
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کوواضح کیا گیا ہے، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادرہوتے ہیں، اس لیے لایعنی اورغیرضروری باتوں سے پرہیزکرنا چاہئے اور کوشش یہ ہوکہ ہمیشہ زبان سے خیرہی نکلے، ایسے لوگوں اورمجالس سے دوررہنا چاہئے جن سے شرکا خطرہ ہو، بحیثیت انسان غلطیاں ضرورہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہارکریں اوراس سے مغفرت طلب کریں۔ نوٹ: (یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے: الصحیحة رقم :۸۹۰)
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 579 :
أخرجه مالك ( 2 / 985 / 5 ) و الترمذي ( 2 / 52 ) و ابن ماجه ( 3969 ) و ابن
حبان ( 1576 ) و الحاكم ( 1 / 45 - 46 ) و أحمد ( 3 / 469 ) و الحميدي ( 911 )
و ابن عساكر في " تاريخ دمشق " ( 10 / 279 و 286 طبع المجمع العلمي ) من طرق عن
محمد بن عمرو بن علقمة عن أبيه ( عن جده ) عن بلال بن الحارث المزني أن
رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : فذكره . و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح ،
و هكذا رواه غير واحد عن محمد بن عمرو نحو هذا قالوا : عن محمد بن عمرو عن أبيه
عن جده عن بلال بن الحارث ، و روى هذا الحديث مالك عن محمد بن عمرو عن أبيه عن
بلال بن الحارث لم يذكر فيه عن جده " .
قلت : و فيه وجوه أخرى من الاختلاف خرجها ابن عساكر ، ثم قال : و هذه الأسانيد
كلها فيها خلل و الصواب رواية محمد بن عمرو بن علقمة عن أبيه عن جده كذلك رواه
الثوري و ابن عينيه و .. و .. و .. و .. " . ثم أخرج رواياتهم كلها مما يؤكد أن
هذه هي المحفوظة . ثم ساقه من طرق أخرى عن علقمة بن وقاص الليثي عن بلال به .
و علقمة هذا ثقة ثبت ، فصح الحديث . و الحمد لله .
و للحديث شاهد من حديث أبي هريرة مرفوعا نحوه مختصرا ، و قد مضى برقم ( 537)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2603
٧
ترقيم دار الغرب الإسلامي (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار الغرب الاسلامی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2406
٩
ترقيم أحمد شاكر (دار الدعوة السلفية)
ترقیم احمد شاکر (دار الدعوۃ السلفیہ)
2406
تمہید کتاب
زہد بالفتح لغت میں بمعنی قدروارد ہوا ہے چنانچہ عرب کہتا ہے۔خُذْزَهْدَ مَا يَكْفِيْكَ اور زهد بالضم بے رغبتی اور طیب کسب اور اور قصرَامل اور زَہَدَ بفتحتین زکوٰۃ ،اور زاہد بے رغبتی کرنے والا اور زاہد بن عبداللہ اور ابوزاہد نام ہے دوبڑے محدثوں کا اور زہاد وہ زمین کہ بغیر آب کثیر کے رواں نہ ہوا اور زہید ہر چیز سے تھوڑے کو کہتے ہیں اور زَہَدَ فیہ یعنی بے رغبتی کی اس چیز سے اور اسی سے قول اللہ تعالیٰ کا (وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ)یعنی بے رغبتی کرنے والے تھے یوسف سے بھائی اس کے اور تزہید کسی کو زہد پر برانگیختہ کرنا (منتہی الارب)اور اصطلاح شر ح میں زہد بے رغبتی کرنا ہے دنیا فانی سے واسطے حصول نعما اور باقیہ اخروی کے اور یہ اولیٰ ہے درجہ ہے اور بے رغبتی کرنا ہے غیر خدا سے واسطے تحصیل و صال الٰہی کے اور قرب اس کے اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اور ترک کرنا حظ نفس کا با ختیار خود اور وہ مرکب ہے حال ہور علم اور عمل سے مراد حال سے رغبت قلبی کا پھیرنا ہے ایک ادنیٰ چیز سے طرف اعلیٰ چیز کے پس جس طرف سے دل کو پھیرا ہے اس کو مرغوب عنہ کہتے ہیں اور مزہودفیہ اور جدھر پھیرا ہے اسے مرغوب فیہ کہتے اور مزہود لہ تو ضرور ہوا کہ جس طرف سے دل کو پھیراہے اس کو مرغوب شئی من وجہ ہوورنہ یہ پھیرنا زہد نہ کہلائے گا جیسا کہ تارک حجر و تراب کا زاہد نہ کہلائے گا برخلاف تارک اہم و دنا نیر کے اور شرط مرغوب فیہ کی یہ ہے کہ بہتر ہواس کے نزدیک مرغوب عنہ سے اس لیے کہ بائع اقدام نہیں کرتا بیع پر جب تک کہ نہیں سمجھ لیتا کہ ثمن بہتر ہے مبیع سے پس وہ کہا جاتا ہے باعتبار بیع کے زاہد اور باعتبار ثمن کے راغب اسی طرح کہا جاتا ہے زاہد باعتبار دنیا کے اور راغب باعتبار عقبیٰ کے یا زاہد کہا جاتا ہے باعتبار ماسوا کے اور راغب باعتبار مولیٰ کے اور مراد علم سے اس مقام میں وہ علم ہے کہ مثمر ہوئے اس حال کا جواوپر مذکور ہوا اور وہ یہ ہے کہ شئے متروک کو حقیر جانے باعتبار شئے ماخوذ کے اور جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا جیسے بائع جب تک کہ ثمن کو مبیع سے بہتر نہ سمجھ لے تب تک ترک مبیع اور اخذ ثمن جائز نہیں رکھتا، اسی طرح جس شخص نے بخوبی جان لیا کہ دنیا فانی ہے بمنزلہ برف کے اور عقبیٰ باقی اور بہتر ہے بمنزلہ درنا نیر کے ،پس اس کو برف کا دینار سے دشوارنہیں خصوصاً ایسے حال میں کہ برف دھوپ میں گھلتی ہو اور قیمت ہزار گنی لاگت سے ملتی ہو اور مشتری اس کا امین ہو اور خازن برف خائن پس یہ علم جب درجہ یقین کو پہنچتا ہے حالت مذکورہ کو کمال قوت دیتا ہے اور واقع برف سے دنیا جلدی فانی ہونے والی ہے اس لیے وہ فقط گرمی میں گھلتی ہے اور یہ گرمی ،جاڑے ،برسات بلکہ دن رات معرض زوال میں ہے اور عقبیٰ دراہم و دینار سے ہزار درجہ اولیٰ ،اس لیے ک یہ بھی فانی ہیں اگر چہ برف سے فنا ان کی متاخر ہو بخلاف عقبیٰ کے کہ ابدالآباد ہے اور فنا و زوال کا ہر گز اس میں مجال نہیں اور مراد عمل سے ترک مطلق ہے اور بدل دنیا اس چیز کا جو ادنیٰ ہے اور لے لینا اعلیٰ کا اس کے عوض میں اسی طرح زہد واجب کرتا ہے مزہود فیہ کے تر کو بالکلیہ اور وہ ساری دنیا ہے مع اسباب اور متعلقات اور مقدمات اپنے پس نکال دے اپنے دل سے محبت اس کی اور داخل کرے اس کے عوض میں محبت طاعات و عبادات کی اور اتباع سنن اور ریاضات کی اور نکال دے اس چیز کو ہاتھ سے اور آنکھوں سے جیسے نکال دیا دل سے اور مشغول کرے چشم و دل کو وظائف طاعات میں جیسا کہ مشغول تھے پہلے دنیا کی لذت میں اور اور مستثیر ہو اس بیع و بدل کے ساتھ (كَذَ ذَكَرَ الْغَزَالِىُّ)اور باقی احکام زہد کے ضمن میں احادیث میں مذکور ہوں گے۔
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھرکی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کوواضح کیا گیا ہے، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادرہوتے ہیں، اس لیے لایعنی اورغیرضروری باتوں سے پرہیزکرنا چاہئے اور کوشش یہ ہوکہ ہمیشہ زبان سے خیرہی نکلے، ایسے لوگوں اورمجالس سے دوررہنا چاہئے جن سے شرکا خطرہ ہو، بحیثیت انسان غلطیاں ضرورہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہارکریں اوراس سے مغفرت طلب کریں۔ نوٹ: (یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے: الصحیحة رقم :۸۹۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Uqbah ibn Aamir (RA) reported having asked, “O Messenger of Allah (ﷺ) how to get salvation?” He said, “Control your tongue, keep yourself to your home and weep over your sins”. [Ahmed 22298]