تشریح:
۱؎: یہ حجۃ الوداع کے موقع کی بات ہے، آپ اس موقع سے ۴؍ ذی الحجہ کی صبح مکہ میں داخل ہوئے، ۸؍ کو منی کو نکل گئے، پھر ۱۴؍ کوطواف وداع کے بعد مدینہ روانہ ہوئے یہ کل دس دن ہوئے، مگر ان دس دنوں میں مستقل طور پر آپ صرف ۴ دن مکہ میں رہے، باقی دنوں میں ادھر ادھر منتقل ہی ہوتے رہے، اس لیے امام شافعی وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے جب ۴؍ دنوں کی اقامت کی نیت کر لے تب پوری نماز پڑھے۔
۲؎: حجۃ الوداع، فتح مکہ، یا جنگ یرموک میں یہی ہوا تھا، اس لیے آپ نے ۱۷،۱۸ دنوں یا دس دنوں تک قصر کیا، اس لیے امام شافعی وغیرہ کا خیال ہی راجح ہے کہ ۴ دنوں سے زیادہ اقامت کی اگر نیت بن جائے تو قصر نہ کرے، مہاجرین کو عمرہ میں تین دنوں سے زیادہ نہ ٹھہرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ وہ چوتھے دن مقیم ہو جاتے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة
في "صحاحهم ". وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ") .
إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل ومسلم بن إبراهيم- المعنى- قالا: ثنا
وُهَيْب: حدثني يحيى بن أبي إسحاق عن أنس بن مالك.
قلت: وهذا سند صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث أخرجه البخاري (2/38) ، ومسلم (2/145) ، وأبو عوانة (2/346-
347) ، والنسائي (1/211 و 212) ، والترمذي (2/433) ، والدارمي (1/355) ،
وابن ماجه (1/333) ، وابن الجارود (224) ، والبيهقي (3/136) ، وأحمد
(3/187 و 195) ، من طرق أخرى عن يحيى... به.
وصححه الترمذي كما ذكرنا في الأعلى"