تشریح:
۱؎: یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہو جانے سے حج فوت ہو جاتا ہے۔
۲؎: یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے اور حج کے فوت ہو جانے سے مامون و بے خوف ہو گیا، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہو گیا اور اسے اب کچھ اور نہیں کرنا ہے، ابھی تو طواف افاضہ جو حج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہو سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن الجارود وابن حبان والحاكم، ووافقه الذهبي، وقال سفيان بن عيينة: ليس بالكوفة حديث أشرف ولا أحسن من هذا) . إسناده: حدثنا محمد بن كثير: ثنا سفيان: حدثني بُكَيْرُ بن عطاء عن عبد الرحمن بن يَعْمَرَ الدِّيلِيِّ. قال أبو داود: " وكذلك رواه مهران عن سفيان قال: " الحجَ الحجّ " مرتين. ورواه يحيى بن سعيد القطان عن سفيان قال: " الحج " مرةً ".
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير بكير بن عطاء الليثي، وهو ثقة. والحديث أخرجه سائر أصحاب " السنن " وغيرهم، وهو مخرج في "الإرواء "
(1064) .