موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الطَّلَاقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ(نُزُولِ قَولِهِ الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ))
حکم : ضعیف
1192 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ شَبِيبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ وَالرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ مَا شَاءَ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَهِيَ امْرَأَتُهُ إِذَا ارْتَجَعَهَا وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ وَإِنْ طَلَّقَهَا مِائَةَ مَرَّةٍ أَوْ أَكْثَرَ حَتَّى قَالَ رَجُلٌ لِامْرَأَتِهِ وَاللَّهِ لَا أُطَلِّقُكِ فَتَبِينِي مِنِّي وَلَا آوِيكِ أَبَدًا قَالَتْ وَكَيْفَ ذَاكَ قَالَ أُطَلِّقُكِ فَكُلَّمَا هَمَّتْ عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ رَاجَعْتُكِ فَذَهَبَتْ الْمَرْأَةُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا فَسَكَتَتْ عَائِشَةُ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ قَالَتْ عَائِشَةُ فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ مُسْتَقْبَلًا مَنْ كَانَ طَلَّقَ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ طَلَّقَ.
جامع ترمذی:
كتاب: طلاق ور لعان کے احکام ومسائل
باب: طلاق دو مرتبہ ہے اس کا بیان
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
1192. ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں: لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتا دے دیتا، رجوع کرلینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی، ا گرچہ اس نے سویا اس سے زائد باراُسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اورنہ تجھے کبھی پناہ ہی دونگا۔ اس نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا: میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہوگی تو رجعت کرلوں گا۔ اس عورت نے عائشہ ؓ کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی توعائشہ ؓ خاموش رہیں، یہاں تک کہ نبی اکرمﷺ آئے توعائشہ نے آپﷺ کواس کی خبردی۔ نبی اکرمﷺ بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا ﴿الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ ( البقرۃ: ۲۲۹) (طلاق(رجعی ) دوہیں، پھر یا تو معروف اوربھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کردینا ہے)۔ عائشہ کہتی ہیں: تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمارکرنا شروع کیا ، جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی، اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔ دوسری سند سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کا ذکرنہیں کیا ہے۔