تشریح:
۱؎: سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ((إِذَا كَانَ فِي الثَّوبِ قَدرَ الدِّرهَمِ مِنَ الدَّمِ غُسِلَ الثَّوبُ وَأُعِيدَتِ الصَّلَاةُ)) امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکرالحدیث ہے۔
۲؎ ؎: اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفو عنہ کے درجہ میں قرار دیا ہے اور اس کی تحدید درہم کی مقدار سے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے۔
۳؎: ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ((أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ فَرَمَى رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَنَزفه الدَّمُ فَرَكَعَ وَسَجَدَ وَمَضَى فِي صَلَاتِه)) لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔
۴؎: کیو نکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں، نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جو نص ہے (وہ یہی حدیث ہے) وہ مطلق ہے اس میں کم و زیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اور یہی راجح قول ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البخاري في "صحيحه ") . إسناده: حدثنا محمد بن كثير العبدي: أنا إبراهيم بن نافع قال: سمعت الحسن- يعني: ابن مسلم- يذكر عن مجاهد.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ لكن اختلفوا في سماع مجاهد من عائشة؛ فقال ابن معين وأبو حاتم: " لم يسمع منها ". وقال علي بن المديني: " لا أنكر أن يكون مجاهد لقي جماعة من الصحابة، وقد سمع من عائشة ". قال الحافظ في "الفتح " (1/328) : " وقد وقع التصريح بسماعه منها عند البخاري في غير هذا الإسناد، وأثبته على ابن المديني؛ فهو مقدم على مَنْ نفاه ". والحديث أخرجه البيهقي (2/405) من طريق المؤلف. ولإبراهيم بن نافع فيه شيخ آخر عن مجاهد: أخرجه البخاري (1/327) من طريق أبي نعيم قال: حدثنا إبراهيم بن نافع عن ابن أبي نَجِيحٍ عن مجاهد... به. ولابن أبي نَجِيح فيه شيخ آخر عن عائشهَ، ويأتي في الكتاب قريباً (رقم 390) .