قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ رُضِخَ رَأْسُهُ بِصَخْرَةٍ​)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1394 .   حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ خَرَجَتْ جَارِيَةٌ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ فَأَخَذَهَا يَهُودِيٌّ فَرَضَخَ رَأْسَهَا بِحَجَرٍ وَأَخَذَ مَا عَلَيْهَا مِنْ الْحُلِيِّ قَالَ فَأُدْرِكَتْ وَبِهَا رَمَقٌ فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ قَتَلَكِ أَفُلَانٌ قَالَتْ بِرَأْسِهَا لَا قَالَ فَفُلَانٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَقَالَتْ بِرَأْسِهَا أَيْ نَعَمْ قَالَ فَأُخِذَ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّيْفِ

جامع ترمذی:

كتاب: دیت وقصاص کے احکام ومسائل

 

تمہید کتاب  (

باب: جس کاسرپتھرسے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان​

)
 

مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)

1394.   انس ؓ کہتے ہیں : ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑکر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چنانچہ اسے نبی اکرمﷺ کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا: ’’تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے؟‘‘ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں، آپ نے پوچھا: ’’فلاں نے؟‘‘ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سرکچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تویہودی پکڑا گیا، اور اس نے اعترافِ جرم کرلیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا، اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲۔ اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا۱؎۔