تشریح:
۱؎: کیونکہ ان کے نزدیک یہ دونوں عمل وضو اور غسل دونوں میں فرض ہیں، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، اس میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اور ’’امر‘‘ کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے، الا یہ کہ کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جس سے’’امر‘‘ کا صیغہ حکم اور وجوب کے معنی سے استحباب کے معنی میں بدل جائے جو ان کے بقول یہاں نہیں ہے، صاحب تحفۃ الاحوذی اسی کے مؤید ہیں۔
۲؎: ان لوگوں کے یہاں یہ دونوں عمل وضو میں مسنون اور جنابت میں واجب ہیں کیونکہ جنابت میں پاکی میں مبالغہ کا حکم ہے۔
۳؎: یہی جمہورعلماء کا قول ہے کیونکہ عطاء کے سوا کسی بھی صحابی یا تابعی سے یہ منقول نہیں ہے کہ وہ بغیر کلی اور ناک جھاڑے پڑھی ہوئی نماز دہرانے کے قائل ہوں، گویا یہ مسنون ہوا فرض اور واجب نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 3 / 291 :
أخرجه الترمذي ( 1 / 8 ) و النسائي ( 1 / 17 و 27 ) و ابن ماجه ( 406 ) و ابن حبان ( 149) و أحمد ( 4 / 339 و 340 ) والخطيب ( 1 / 286 ) عن منصور ابن المعتمر عن هلال بن يساف عن سلمة بن قيس الأشجعي قال : قال رسول الله صلى
الله عليه وسلم : فذكره .
قلت : و هذا إسناد صحيح ، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم غير الأشجعي و هو صحابي معروف ، و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح "