قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَنْفَالِ​)

حکم : حسن

ترجمة الباب:

3079 .   حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ جِئْتُ بِسَيْفٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَفَى صَدْرِي مِنْ الْمُشْرِكِينَ أَوْ نَحْوَ هَذَا هَبْ لِي هَذَا السَّيْفَ فَقَالَ هَذَا لَيْسَ لِي وَلَا لَكَ فَقُلْتُ عَسَى أَنْ يُعْطَى هَذَا مَنْ لَا يُبْلِي بَلَائِي فَجَاءَنِي الرَّسُولُ فَقَالَ إِنَّكَ سَأَلْتَنِي وَلِيس لِي وَإِنَّهُ قَدْ صَارَ لِي وَهُوَ لَكَ قَالَ فَنَزَلَتْ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْأَنْفَالِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ مُصْعَبٍ أَيْضًا وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

جامع ترمذی:

كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں 

  (

باب: سورہ انفال سے بعض آیات کی تفسیر​

)
 

مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)

3079.   سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس) پہنچا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! اللہ نے میرا سینہ مشرکین سے ٹھنڈا کر دیا (یعنی انہیں خوب مارا) یہ کہا یا ایسا ہی کوئی اور جملہ کہا (راوی کو شک ہو گیا) آپﷺ یہ تلوار مجھے عنایت فرما دیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ نہ میری ہے اور نہ تیری ۱؎، میں نے (جی میں) کہا ہو سکتا ہے یہ ایسے شخص کو مل جائے جس نے میرے جیسا کارنامہ جنگ میں نہ انجام دیا ہو، (میں حسرت ویاس میں ڈوبا ہوا آپﷺ کے پاس سے اٹھ کر چلا آیا) تو (میرے پیچھے) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا قاصد آیا اور اس نے (آپﷺ کی طرف سے) کہا: تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی، تب وہ میری نہ تھی اور اب وہ (بحکم الٰہی) میرے اختیار میں آ گئی ہے۲؎، تو اب وہ تمہاری ہے (میں اسے تمہیں دیتا ہوں)‘‘ راوی کہتے ہیں، اسی موقع پر ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ﴾۳؎ والی آیت نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲۔ اس حدیث کو سماک بن حرب نے بھی مصعب سے روایت کیا ہے۔۳۔ اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔