تشریح:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رؤیت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتاہے کہ ((صُوْمُوْا)) اور ((اَفْطِرُوْا)) کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وقد أخرجاه. وقال الترمذي:حسن صحيح ") إسناده: حدثنا سليمان بن حرب: ثنا حماد عن عمرو- وهو ابن دينار- عن جابر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. وحماد: هو ابن زيد. والحديث أخرجه البيهقي (3/217 و 221) من طريق أخرى عن سليمان بن حرب... به. وهو، والبخاري (2/11) ، ومسلم (3/14) ، و النسائي (1/208) ، والترمذي (2/384- 385) من طرق أخرى عن حماد بن زيد... به.
ومسلم، وابن ماجه (1/344) ، وابن الجارود (693) ، والدارقطني (ص 168) ، والبيهقي (3/193) من طرق أخرى عن عمرو بن دينار... به؛ وزاد مسلم والدارقطني في رواية: وقال: " إذا جاء أحدكم والإمام يخطب؛ فليصلِّ ركعتين "
وأخرجه الطبراني في ترجمة (سُلَيْك) من "المعجم الكبير" (7/192- 196) من طرق عن جابر وأبي هريرة بروايات وألفاظ متقاربة. ولهذه الزيادة طريق أخرى، يأتي ذكرها في الطريق الآتية