تشریح:
۱؎: یعنی صاحب طعام کے لیے برکت کی دعا کرے، کیو نکہ طبرانی کی روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے واردہے جس میں ((وَإِنْ كَانَ صَائِمََا فَلْيَدْعُ بِالْبَرَكَةِ)) کے الفاظ آئے ہیں، باب کی حدیث میں ((فَلْیُصَلِّ)) کے بعد ’’يعني الدعاء‘‘ کے جو الفاظ آئے ہیں یہ ((فَلْیُصَلِّ)) کی تفسیر ہے جو خود امام ترمذی نے کی ہے یا کسی اور راوی نے، مطلب یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد دعا ہے، بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرے اس کے گھر جائے اور گھر کے کسی کونے میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر میں پڑھی تھی۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 616 :
أخرجه الطحاوي في " مشكل الآثار " ( 4 / 148 ) : حدثنا يزيد قال : حدثناأبو عاصم قال : حدثنا ابن جريج قال : أخبرني أبو الزبير سمع جابرا يقول :
سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول : فذكره .
قلت : و هذا إسناد صحيح مسلسل بالتحديث ، و لذلك خرجته ، و إلا فقد أخرجه مسلم
( 4 / 153 ) : و حدثنا ابن نمير : حدثنا أبو عاصم عن ابن جريج عن أبي الزبيربهذا الإسناد مثله .
قلت : يعني إسناد سفيان عن أبي الزبير عن جابر ساقه قبله لم يقع عنده فيه تصريحأبي الزبير بالتحديث ، و تصريحه به مهم لأنه مدلس ، فإذا عنعن كما وقع في" مسلم " لم تنشرح النفس لحديثه ، و كذلك أخرجه أبو داود ( 3740 ) و أحمد ( 3 /392 ) من طريق سفيان به و ابن ماجه ( 1751 ) من طريق أحمد ابن يوسف السلمي حدثنا أبو عاصم به ، لم يصرح أبو الزبير بالتحديث .
و يزيد هو ابن سنان البصري نزيل مصر . قال ابن أبي حاتم ( 4 / 2 / 267 ) : " كتبت عنه ، و هو صدوق ثقة " .