تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اگر پانی میں کوئی تنکا وغیرہ گر جائے تو اسے کسی چیز (چمچ وغیرہ) سے نکال دیا جائے یا تھوڑا سا پانی انڈیل دیا جائےتاکہ تنکا نکل جائے۔
(2) اگر دودھ یا چائے وغیرہ گرم ہو تو ٹھنڈا کرنے کےلئے بھی پھونک مارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دوسرے برتن میں تھوڑا تھوڑا ڈال کر پی لیں۔
(3) بعض علماء نے اس سے دلیل لی ہے کہ بیمار کے لئے کوئی سورت یا دعاء پڑھ کر پانی میں دم نہیں کرنا چاہیے بلکہ براہ راست مریض کودم کرنا چاہیے۔ اوردعا کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ دونوں عمل مسنون ہیں جبکہ پانی میں دم کرنا مسنون نہیں۔ اور بعض علماء کے نزدیک پانی میں دم کرنا جائز ہے۔ کیونکہ دم میں سورۃ فاتحہ اور دعایئں وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے اثرات کو پانی میں منتقل کرنے کےلئے پانی میں دم کئے بغیرچارہ نہیں اس لئے ان کے نزدیک بطور پانی میں پھونک مارنا عام پھونک مارنے سے مختلف ہے۔ عام حالات میں پھونک مارنا یقیناً ممنوع ہے۔ لیکن بطور دم پھونک مارنا جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ (دیکھئے مضمون: کیا پانی پر دم کرنا جائز نہیں از حافظ صلاح الدین یوسف شائع شدہ الاعتصام جلد:55 شمارہ 30 یکم اگست 2003 وفتاویٰ الدین الخالص (عربی) مولانا امین اللہ پشاوری ج:5 ص :40 44)
الحکم التفصیلی:
قلت : وهو على شرط البخاري . ورواه شريك عن عبد الكريم به إلا أنه جعله من فعله صلى الله عليه وسلم ولفظه : ( لم يكن رسول اللة صلى الله عليه وسلم ينفخ في طعام ولا شراب ولا يتنفس في الأناء ) . أخرجه ابن ماجه ( 3288 ) . قلت : وشريك هو ابن عبداللة القاضي وهو سئ الحفظ . والجملة الأولى من الحديث رواها خالد الحذاء أيضا عن عكرمة به . أخرجه ابن ماجه ( 3428 ) وابن حبان ( 1368 ) والحكم ( 4 / 138 ) وزادا : ( وأن يشرب من في السقاء ) . وهذه الزيادة عند البخاري ( 4 / 37 ) من هذا الوجه وقال الحاكم : ( صحيح على شرط البخاري وقد اتفقا على حديث يحيى بن أبى كثير عن عبد الله بن أبى قتادة عن أبيه في النهى عن التنفس في الأناء )