تشریح:
(1) اس حدیث کی یہ سند ضعیف ہے، البتہ اس قسم کا واقعہ دوسری صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوجہیم بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ بئر جمل کی طرف سے تشریف لارہے تھے کہ ایک آدمی آپ کو ملا۔ اس نے سلام کہا تو نبی ﷺ نے جواب دینے سے پہلے دیوار پر ہاتھ مار کر چہرے اور ہاتھوں پر پھیر ے (تیمم کیا) پھر سلام کا جواب دیا۔ (صحیح البخاری، التیمم، باب التیمم فی الحضر إذا لم یجد الماء وخاف فوت الصلاۃ، حدیث:337)
(2) کسی عذر اور مشغولیت کی وجہ سے سلام کا جواب مؤخر کرنا جائز ہے۔
(3) امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ تیمم کے لیے سفر شرط نہیں۔ سورہ مائدہ کی آیت:6 سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیمم سفر ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آیت میں ان حالات کا ذکر ہے جن میں عام طور پر تیمم کی ضرورت پیش آسکتی ہے یہ مطلب نہیں کہ ان حالات کے علاوہ تیمم جائز نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسنادها صحيح. وقد أخرجها مسلم وأبو عوانة في "صحيحبهما") .
إسناده: حدثنا الحسن بن عمرو: أنا سفيان- يعني: ابن عبد الملك- عن ابن
المبارك عن معمر عن أيوب عن معاذة العدوية.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير الحسن بن عمرو
- وهو السَّدُوسِيُ البصري-؛ روى عنه جمع من الثقات، وذكره ابن حبان في
"الثقات لما. وقال الحافظ في "التقريب ":
" صدوق، لم يصب الأزدي في تضعيفه ".
والحديث أخرجه مسلم وأبو عوانة والبيهقي وأحمد من طريق عاصم الأحول
عن معاذة قالت:
سألت عائشة فقلت: ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة؟!
فقالت: أحرورية أنت؟! قلت: لستُ بحروريةٍ؛ ولكتي أسأًل! قالت:
كان يصيبنا ذلك؛ فنؤمر بقضاء الصوم، ولا نؤمر بقضاء الصلاة.
وأخرجه النسائي (1/319) من طريق قتادة عن معاذة... نحوه.