تشریح:
(1) حدیث میں (حَزَاوِرَةٌ) کا لفظ وارد ہوا ہے، جس کا واحد (حَزوَرَ) ہے۔ اس سے مراد عمر کا وہ حصہ ہے جب جوانی کی پوری قوت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس عمر میں نوجوانی کا کھلنڈرا پن ختم ہو چکا ہوتا ہے، لہذا انسان ہر کام کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیتا ہے اور اسے اچھی طرح سمجھ سکتا ہے اور بڑھاپا ابھی شروع نہیں ہوتا کہ انسان یاد کرنے اور عمل کرنے کی مشقت برداشت نہ کر سکے۔ ان صحابہ کرام ؓ نے اس عمر میں دین کا علم حاصل کیا جو اس مقصد کے لیے بہترین عمر ہے۔
(2) علم کا اصل مقصد عمل ہے، لہذا طالب علم کو چاہیے کہ جو علم حاصل کرے اس پر عمل بھی کرے تاکہ علم یاد بھی رہے اور اس کا فائدہ یعنی رضائے الہی بھی حاصل ہو۔
(3) طالب علم کو ابتدائی مرحلے میں صرف مسائل بتانے چاہئیں۔ ان کے دلائل یا اختلافی مسائل کے دلائل کی تفصیل اور راجح قول کی وجہ ترجیح وغیرہ بعد کے مراحل میں بیان ہونے چاہئیں۔
(4) توحید اور عقائد کا علم عبادات و معاملات کے علم سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکی دور میں جو قرآنی سورتیں نازل ہوئی ہیں ان میں زیادہ زور عقیدے پر ہے۔ اور مدنی دور میں زیادہ تر معاملات بیان ہوئے۔
(5) علم میں اضافے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
(6) روایت کا آخری جملہ ایمان میں کمی بیشی پر دلیل ہے۔