تشریح:
(1) اس حدیث سے گزشتہ حدیث نمبر (748) میں مذکور ایک اور مسئلہ کی تائید ہوگئی یعنی مسجد کو بازار نہ بنایا جائے کیونکہ خرید و فروخت میں سودے پر اکثر تکرار ہوتی ہے جس سے شور پیدا ہوتا ہے اور وہ مسجد کے ادب کے منافی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسجد میں خرید وفروخت کی صورت میں لوگ بیچنے کی چیزیں مسجد میں لانا شروع کردینگے جس سے نماز کی جگہ تنگ ہو جائے گی اور لوگ مسجد میں عبادت کے بجائے خرید و فروخت کے لیے آنے لگیں گے، گویا مسجد بنانے کا اصل مقصد متاثر ہوگا۔
(2) (تناشد) کا مطلب ایک دوسرے کے مقابلے میں شعر پڑھنا ہے۔ جس طرح اہل عرب جاہلیت میں اپنے اپنے قبیلے کی تعریف میں قصیدے کہتے تھے۔ اسی طرح وہ اشعار جن کا مضمون اخلاق سے گرا ہوا یا خلاف شریعت ہو وہ مسجد سے باہر بھی پڑھنے جائز نہیں مسجد میں تو بالاولی منع ہوگا۔ اس کے برعکس جن شعروں میں توحید کی طرف دعوت اور اخلاق حسنہ کی ترغیب ہو یا کفر وشرک کی تردید اور کفار کی مذمت ہو ایسے اشعار کا مسجد میں پڑھنا سننا جائز ہے۔ حضرت حسان رسول اللہ ﷺ کی اجازت اور تائید سے مسجد نبوی میں اس قسم کے شعر پڑھا کرتے تھے، دیکھیے (صحيح البخاري، بدء الخلق، باب ذكر الملائكة صلوات الله عليهم، حديث:3212)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وقال الترمذي: " حديث حسن "، وصححه ابن
(4/246)
خزيمة وأبو بكر بن العربي)
إسناده: حدئنا مسدد: ثنا يحيى عن ابن عَجْلان عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده.
قلت: وهذا إسناد حسن؛ للخلاف المعروف في عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، كما سبق تحريره.
والحديث أخرجه الإمام أحمد في "المسند" (2/179) : ثنا يحيى عن ابن عجلان... به.
وأخرجه البيهقي (2/448 و 3/234) من طرق أخرى عن ابن عجلان... به مفرقاً.
وأخرجه النسائي (1/117) ، والترمذي (2/139/322) ؛ دون إنشاد الضالة. وقال الترمذي: "حديث حسن ".
ولابن ماجه (1/348) منه الجملة الأخيرة منه.
ولأحمد في رواية (2/212) الجملة الأولى منه. والحديث؛ صححه ابن خزيمة
وأبو بكر بن العربي؛ كما ذكر الشيخ أحمد شاكر في تعليقه على "الترمذي ".
الإرواء (7 / 363)