تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اللہ تعالیٰ کی عظمت وشان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے اقوال وافعال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جو اس کے ادب کے منافی ہوں۔
(2) بعض اوقات غلط فہمی کی بنا پر انسان ایک لفظ کو مناسب تصور کرتا ہے۔ حالانکہ وہ نامناسب ہوتا ہے۔ جب ایسی کسی غلطی پر متنبہ کیا جائے۔ تو فوراً اصلاح کرلینی چاہیے۔
(3) (التحیات) ان الفاظ کو کہا جاتا ہے۔ جن کے ذریعے سے لوگ ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اسلامی تہذیب میں اس مقصد کےلئے السلام علیکم اور وعلیکم السلام جیسے الفاظ مقرر ہیں۔ اللہ کے لئے تحیات سے مراد وہ عبادتیں ہیں۔ جن کا تعلق زبان اور گویائی سے ہے۔ مثلا اللہ کی تعریف، شکر، ذکر، دعا، قسم وغیرہ۔ یہ سب عبادتیں اللہ کا حق ہیں۔ ان میں کسی اور کو شریک کرنا درست نہیں۔ مخلوق کی کسی ظاہری خوبی کی تعریف جس میں عبادت کے جذبات شامل نہیں ہوتے۔ وہ اس عبادت میں شامل نہیں۔
(4) (الصلوٰت) صلاۃ کی جمع ہے۔ جس کے لغوی معنی دعا اور شرعی معنی نماز کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد بدنی عبادتیں ہیں مثلا رکوع، سجدہ، قیام، طواف اور روزہ وغیرہ۔ کسی کے لئے احتراماً جھکنا یا کسی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا یا اللہ کے گھر کے سوا کسی چیز قبر، عمارت اور درخت وغیرہ کا طواف کرنا شرک ہے۔ سجدہ تعظیمی پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ اب حرام ہے۔ یہ اور اس قسم کی تمام عبادتیں صرف اللہ کا حق ہیں۔
(5) (الطیبات) پاک چیزیں پاک اعمال۔ اس سے مالی عبادتیں مراد لی گئی ہیں۔ مثلاً زکواۃ و صدقات، نذر ونیاز وغیرہ۔ مخلوق میں سے کسی کے نام کی نذر جائز نہیں۔ خواہ وہ مالی نذر ہو يا بدنی، ان تین الفاظ میں ہرقسم کی عبادات اللہ ہی کے لئے خاص ہونے کا اقرار ہے اور یہی توحید ہے۔
(6) دوسروں کےحق میں دعا کرتے وقت اپنے لئے بھی دعا کرلینی چاہیے۔ اسی طرح جب اپنے لئے دعا کرنا مقصود ہو تو دوسروں کو بھی شامل کرلینا چاہیے۔ خصوصاً جو مسلمان بھائی نظروں سے اوجھل اور جسمانی طور پردور ہوں۔ ان کےلئے دعا کرنا خلوص کی علامت ہے۔ ممکن ہے اس کی برکت سے دعا مانگنے والے کی اپنے حق میں دعا قبول ہوجائے۔
(7) زمین اور آسمان میں موجود نیک بندوں میں تمام نیک انسان جن اور تمام فرشتے شامل ہوجاتے ہیں۔ اس لئے جبریئل، میکائیل علیہ السلام وغیرہ کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسنون دعاؤں میں جو جامعیت اور خوبی ہے وہ خود ساختہ دعاؤں میں نہیں۔ لہٰذا مسنون اذکار کوچھوڑ کر غیر مسنون دعاؤں اوراذکار میں مشغول نہیں ہونا چاہیے۔دعائے گنج العرش، درودتاج، درود ماہی، درود لکھی کے نام سے بہت سی چیزیں مشہور ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں۔
(8) (التحیات) کی دُعا میں مختلف روایات میں الفاظ کا معمولی فرق ہے۔ صحیح سندوں سے روایت شدہ الفاظ کے مطابق جیسے بھی پڑھ لیا جائے درست ہے۔ ان میں سے بعض آئندہ روایات میں مذکور ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه هو ومسلم وأبو
عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: هو أصح حديث روي عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
في التشهد ) .
إسناده: حدثنا مسدد: أخبرنا يحيى عن سليمان الأعمش: حدثني شقيق
ابن سلمة عن عبد الله بن مسعود.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما يأتي، وكذا
مسلم.
والحديث أخرجه أحمد (1/431) : حدثنا يحيى... به.
وأخرجه ابن ماجه (1/290) : حدثنا أبو بكر بن خَلآد الباهلي: ثنا يحيى بن
سعيد... به.
وأخرجه هو، والبخاري (12/37) ، ومسلم (2/14) ، وأبو عوانة (2/229) ،
والنسائي (1/174) ، والدارمي (1/308) ، والطحاوي (1/154- 155) ، وابن
الجارود (205) ، والبيهقي (2/138) ، وأحمد (1/382) من طرق عن الأعمش.
وتابعه منصور عن أبي وائل... به.
أخرجه مسلم وأبو عوانة والنسائي وغيرهم.
وله متابعون آخرون على صيغة التشهد فقط: عند النسائي وابن حبان
(3/203) .
وتابعه الأسود بن يزيد عن عبد الله بن مسعود قال:
علَمنا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذا قعدنا في الركعتين- أن نقول: التحيات... إلخ
التشهد.
أخرجه الترمذي (2/81) ، والنسائي (1/173- 174) ، وابن ماجه، وقال
الترمذي:
حديث ابن مسعود قد روي عنه من غير وجه، وهو أصح حديث روي عن
النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في التشهد .