ایمان انسانی فطرت کی خالص اورصحت مند حالت ہے ۔ اس میں انسان اللہ کے ساتھ اپنے حقیقی رشتے اور وعدے پر قائم ہوتا ہے ۔ کفر اس رشتے اور اللہ سےکیے گئے وعدے کا انکار ہے ۔ نفاق دل کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان اللہ کے ساتھ اپنے اصل رشتے اور اس رشتے کے تحفظ کے لیے اللہ کے ساتھ کیے گئے وعد ے کو بھی توڑچکاہوتا ہے اور اس کے ساتھ شدید تذبذب اور بےیقینی کے مرض میں بھی گرفتار ہوتاہے ۔ جوشخص پکا منافق ہو وہ کافر ہوتاہے لیکن اپنی زندگی کفر کےمطابق گزارنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا۔ جدھر سےمفاد زیادہ حاصل ہو خود کو اس کیمپ سےوابستہ کرنےکی کوشش کرتا ہے اسی طرح جس طرف اسےدنیاوی مفاد کی امید زیادہ ہوتی ہے وہ اسی طرف کارخ کرتاہے ۔ مومن کی امید اورخوف دونوں کامحور اللہ کی ذات ہوتی ہے ۔ عموما کفر ونفاق ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ کسی میں نفاق کاپہلو غالب ہوتاہے ،وہ منافق کہلاتا اور کسی میں کفر کا، اس کو کافر کہا جاتا ہے۔ نفاق کی کچھ خصوصیات اس میں بھی ضرور موجود ہوتی ہیں، اس لیے اللہ نے کئی جگہوں پر کافروں اورمنافقوں اوران کی مشترکہ بری خصلتوں کاذکر ایک ساتھ کیا ہے ۔ مثال کےطورپر دیکھیے(سورہ توبہ 73۔87)
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کبھی اپنی قوم کےمجبور کرنے سے مارے باندھے رسول اللہﷺ کے ساتھ کسی سفر میں شریک بھی ہوا لیکن اند ر سے سفر کی ہرتکلیف پر کڑھتا بھی رہا اور یہ کوشش بھی کرتا رہا کہ اس کی قوم رسول اللہﷺ کی حمایت سےدستکش ہو جائے ۔ مفاد پرست انسان میں بزدلی اورذالت دونوں اکٹھی ہوجاتی ہیں۔ نفاق کفر کے ساتھ ساتھ ان دونوں اور اس طرح کی دوسری گندی صفات کامجموعہ ہوتاہے ، اس لیے منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے کا مستحق ہوتاہے ۔
نفاق کا یہ سلسلہ رسول اللہﷺ کی ہجرت کے بعد مدینہ میں سامنے آیا، جب اہل مدینہ کی اکثریت ایمان لانے کےبعد رسول اللہﷺ کی اطاعت میں ایک منظم قوت بننا شروع ہوئی ۔ بعد کے دوسرے میں مسلمانوں کی فتح کے بعد بعض دوسرے عرب قبائل کے ہاں بھی نفاق نمودار ہونا شروع ہوگیا ۔ رسو ل اللہﷺ کو معلوم تھا کہ کون کون لوگ منافق ہیں۔ ان کے نفاق کی شدت کابھی آپ کو پتہ تھا، اس کے باوجود آپﷺ نے ان کےبارےمیں تحمل اوربرداشت کی پالیسی پر عمل فرمایا۔ ہمیشہ ان کی ظاہری باتوں کےمطابق ان سےسلوک کیا۔ یہ لوگ جہاد میں شریک نہ ہوتے اورجھوٹے عذر پیش کرتے تو آپ ﷺ ان کےجھوٹ سےآگاہ ہونے کاباوجود ان کےعذر تسلیم فرمالیتے بلکہ ان کے ساتھ تجدید بیعت بھی فرماتے اور مغفرت کی دعا بھی کرتے ۔ اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔ اہم ترین یہ ہیں کہ آپﷺ کووحی کےذریعے سےآگاہ کر دیا جاتا تھا کہ کون سچا مومن ہے اورکون منافق لیکن آپ کے بعد ایسا ممکن تھا ۔ آپ ﷺ کا ان لوگوں سےتعامل قیامت تک کےلیے نمونہ عمل تھا، اس لیے ہمیشہ ظاہری حالت کےمطابق سلوک کرنا ضروری تھا (2)آپ خواہش اور امید رکھتےتھے کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح صحیح طور پر اسلام سے وابستہ ہوجائیں، اس لیے ان کو ڈھیل دینا ضروری تھی ۔(3) ان کے ساتھ سختی کرنے سے ان کے دوسرے رشتہ دار پرانی قبائلی عصبیت کی بنا پر ان کے ہمدرد بن جاتے اورخطرہ تھا کہ اس طرح وہ دین کے حوالے سے فتنے میں مبتلا ہوجائیں گے۔ (4)عبداللہ بن ابی کےبیٹے عبداللہ کی طرح سب کے انتہائی قریبی رشتہ دارمخلص مومن تھے۔ انہیں جذباتی صدموں سےمحفوظ رکھنا ضروری تھا۔ (5)یہ لوگ عموما مالدار اپنے اپنے قبائل میں باحیثیت ،شکل وہیت اورطرز زندگی کے اعتبار سے مؤثر اور بارسوخ لوگ تھے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے (وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ) ’’جب آپ ان کو دیکھیں تو ان کے جسم آپ کو اچھے لگیں گے، اگروہ بات کریں تو آپ ان کی بات سنیں گے، ایسے(اکڑےہوئے) ہیں جیسے سہارے سے کھڑے کئے ہوئے لکڑی کے شہتیر ہوں (لیکن اندر سے یہ حال ہے کہ ) اگر کوئی بھی چیخ بلند ہوتو سمجھتے ہیں انہیں پر بلاآئی ہے ۔ یہی دشمن ہیں ان سےبچ کر رہیں ،اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں سےپھرے جاتے ہیں ۔‘‘(المنافقون 64۔4) ن کو کھلی دشمنی کی طرف دھکیلنے کے بجائے ان کے شر کو کم ازکم سطح پر رکھنا بہتر حکمت عملی تھی ۔ رسول اللہﷺ تحمل سےکام لیتے ہوئے ان سےصرف نظر بھی کرتے تھے اور ایک حد سے آگے نکلنے سےخوفزدہ بھی رکھتے تھے ، نیز ان کے مومن لواحقین سےاچھا سلوک کرکے منافقین کو غلط کاموں میں اپنوں کی حمایت سےمحروم بھی رکھا جاتا تھا ۔
یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے تمام دشمنوں کی مشترکہ خصوصیت ہے کہ وہ بے یقینی کا شکار ہوتے ہیں۔ کافر جو کفر اپنی زبانوں سے ظاہر کرتے ہیں، اس پر بھی انہیں پختہ یقین نہیں ہوتا ۔ ابوجہل نے جب ساتھیوں سمیت یہ کہا(وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ)’’اے اللہ اگر یہ قرآن تیری طرف سےحق ہے تو ہم پر آسمان سےپتھر برسا یا ہم پر دردناک عذاب لےآ۔‘‘(الانفال 8۔31)تو اس وقت بھی ان کو یقین نہ تھا کہ ’نعوذباللہ‘قرآ ن اللہ کاپیغام نہیں، رسول اللہﷺ کاگھڑا ہوا ہے اس لیے چپکے چپکے استغفار بھی کرتے جا رہے تھے ۔
یہی حال یہود کا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ رسول اللہﷺ سچے رسول ہیں، وہ آپ کے پاس آکر ایسی باتیں بھی کہتے تھے جو ایک رسول کے سامنے کہی جاسکتی ہیں جن میں آپ کے پیغام کی تصدیق کاپہلو یا آپ سے اپنی کتاب اور اپنے دین کی کسی بات کی تصدیق چاہنے کا پہلو موجود ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے ۔ یہود آپ کی خدمت میں آکر آخرت کے حوالے سے جوباتیں کہتے تھے وہ آپ کی تعلیمات کی تصدیق کرنے والی ہوتی تھیں ۔ روح کے بارےمیں انہوں نے جو پوچھا اس میں اگرچہ ان کی فتنہ انگیزی کی خواہش شامل تھی لیکن رسول اللہﷺ نے جواب میں وہی بات فرمائی جو تورات میں موجود تھی۔
یہود کے بعد قریش کی ان جیسی صفات کا تذکرہ ہے ۔ خفیہ استغفار کے علاوہ قحط سے نجات کےلیے مشرکین کے صرار ابوسفیان مکہ سےچل کررسول اللہﷺ سےدعا کی درخواست کےلیے آئے لیکن اس وقت بھی ایمان کی توفیق نہ ہوئی ۔ جن مشرکین نے خود کسی بڑے معجزے کامطالبہ کیاتھا وہ شق قمر جیسا معجزہ دیکھ کر اور اچھی طرح اس کا مشاہدہ کرکے بھی ایمان نہ لائے حالانکہ ان کے دل ودماغ رسول اللہﷺ کی سچائی کی شہادت دے رہے تھے مگر یقین کی مطلوبہ سطح پر نہیں پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان قریش کے ساتھ بھی تحمل کامعاملہ فرمایا اور انہیں زیادہ سےزیادہ مہلت دی تاآنکہ مفتوح اور بے بس ہوجانے کےبعد بالآخریہ بھی اسلام میں داخل ہوگئے۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے تالیف قلوب کے بے مثال مظاہروں نے ان کو اسلام کا سچا پیروکار بھی بنادیا۔ اس طرح یہ نجات حاصل کرنے کے قابل ہوگئے، ورنہ قیامت کے روز کفر پر اٹھتے تو دنیا ومافیہا دے کر بھی نجات حاصل نہ کر پاتے، منافقوں اورکافروں کی ظاہر دنیوی حالت اچھی ہوتی ہے ، اس کی وجہ یہ نہیں کہ جس طرح وہ سمجھتے ہیں یادوسرے نادان خیال کرتےہیں کہ ان پر اللہ کابہت فضل ہے بلکہ انہیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دیا جاتاہے، یہاں وہ عیش وآرام کی زندگی گزارتے ہیں اور آخرت کی دائمی زندگی کی تمام نعمتوں سےمحروم ہوجاتے ہیں ۔ دوسری طرف مومن دنیا ہی میں مشکلات برداشت کر لیتا ہے اور آخرت میں دائمی نعمتوں سے شاد کام ہوتا ہے ۔ دنیا کی نعمتیں اتنی بے وقعت اور عارضی ہیں کہ کافر کو عذاب کی ایک ڈبکی دنیا کی نعمتوں کی یاد تک سےمحو کردے کی جبکہ مومن کو نعمتوں کے جہاں میں داخل ہوتے ہی یاد بھی نہ رہے گا کہ دنیا میں کبھی مشقت اٹھائی تھی یانہیں۔ مومن دنیامیں مشقتیں اٹھا کر بھی ہمیشہ خیر پھیلاتا رہا اس کا اسے بے حساب اجر ملے گا۔ یہ اس پر اللہ کی خصوصی رحمت ہوئی اورنجات حقیقت میں رحمت ہی سےحاصل ہوتی ہے، اس کےلیے انسان کے اپنے اعمال کافی نہیں ہوسکتے۔ آخر میں یہ بیان کیا ہے کہ جب نجات اللہ کی عطا کردہ توفیق اور اس کی رحمت پر منحصر ہے تو کسی انسان کویہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ دوسروں کی ہدایت کا سار انحصار اس کی کوششوں پر ہے ، اس لیے وہ دن وعظ نصیحت میں نہ لگا رہے ۔ اس کا اثر الٹایہ ہوسکتا ہے کہ سننے والے اکتاہٹ کا شکار ہوکر ہدایت قبول کرنےسے مزید دورہوسکتےہیں۔