باب: مسجد وغیرہ میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے قینچی کرنا درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To clasp one's hands by interlocking the fingers in the mosque or outside the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
477.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں زوال کے بعد کی نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی اور دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد مسجد میں گاڑھی ہوئی ایک لکڑی کی طرف گئے اور اس پر ٹیک لگا لی، گویا آپ ناراض ہوں اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل فرمایا اور اپنا دایاں رخسار بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ لیا۔ جلد باز لوگ تو مسجد کے دروازوں سے نکل گئے اور مسجد میں حاضر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا: کیا نماز کم ہو گئی ہے؟ ان لوگوں میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ بھی موجود تھے، مگر ان دونوں نے آپ سے گفتگو کرنے سے ہیبت محسوس کی۔ ایک شخص جس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے اور اسے ذوالیدین کہا جاتا تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم ہو گئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز ہی کم کی گئی ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا ذوالیدین صحیح کہتا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ آگے بڑھے اور جتنی نماز رہ گئی تھی اسے ادا کیا، پھر سلام پھیرا۔ اس کے بعد آپ نے تکبیر کہی اور سجدہ سہو کیا جو عام سجدے کی طرح یا اس سے کچھ لمبا تھا۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور اللہ أکبر کہا۔ پھر اللہ أکبر کہہ کر دوسرا سجدہ کیا جو اپنے عام سجدوں کی سطح یا اس سے کچھ طویل تھا۔ پھر سر اٹھا کر اللہ أکبر کہا اور سلام پھیر دیا۔
تشریح:
1۔ پہلی حدیث میں واقد اپنے والد محمد بن زید سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا۔اس روایت میں یہ شک تھا کہ ابن عمر ؓ سے بیان کی گئی ہے یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے ؟امام بخاری ؒ نے اس شک کو دور کرنے کے لیے نیز تشبیک کی وجہ بتانے کے لیے دوسری روایت بیان کی کہ عاصم بن محمد نے یہ روایت اپنے والد محمد بن زید سے سنی، لیکن وہ اسے یاد نہ رہی، پھران کی بھائی واقد بن محمد نے ٹھیک ٹھیک طریقے پر محمد بن زید ہی سے روایت بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اے عبداللہ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم ایسے لوگوں کے درمیان رہ جاؤ گے جو کوڑے کرکٹ اور بھوسے کی طرح ہوں گے؟‘‘ اس روایت سے شک دور ہوگیا کہ اسے بیان کرنے والے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بلکہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ہیں۔ پھر تشبیک کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مضمون سمجھانے کے لیے تمثیل کے طور پر انگلیوں کوانگلیوں میں ڈالا۔ چنانچہ یہ روایت امام حمیدی ؒ کی کتاب الجمع بین الصحیحین میں بایں اضافہ نقل ہوئی ہے کہ ان ردی اور بے کار لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ ان کے عہد وپیمان اور ان کی امانتیں تباہ ہوچکی ہوں گی اور وہ اس طرح ہوگئے ہوں گے، پھر آپ نے’’اس طرح‘‘ کی وضاحت کے لیے اپنی انگلیوں کوقینچی بنایا۔ (فتح الباری:732/1) 2۔ بعض روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتا ہے،پھر مسجد کی طرف جانے کی نیت لے کر گھر سے نکلتاہے تو وہ اپنی انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالے کیونکہ وہ نماز ہی میں ہے۔‘‘(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:386) ابن ابی شیبہ میں مزید وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے توتشبیک نہ کرے کیونکہ یہ عمل شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں۔ امام بخاری ؒ نے یہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ جن روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔ ان کی صحت محل نظر ہے یا وہ ممانعت حالت نماز پر محمول ہے، نیز اگر کسی صحیح مقصد کے پیش نظر کبھی ایسا کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک مقصد کی وضاحت کے لیے تشبیک فرمائی۔ امام بخاری ؒ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت سے ثابت کیا کہ ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔ پھر حدیث ابوہریرہ ؓ سے ثابت فرمایا کہ مسجد میں ایسا عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر ابن منیر نے کہا ہے کہ ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ منع کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ فضول اور بے کار طور پر ایسا کرنا منع ہے، اگر کسی حکمت کے پیش نظر ایسا کیا جائے تو جائز ہے، مثلاً: اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث میں ہے، یا تفہیم کے لیے تمثیل کے طور پر معنویات کو محسوسات میں تبدیل کرنے کے لیے ایسا کیاجائے۔ جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو باہم شیر وشکر رہنے کے متعلق بیان فرمایا، پھر ہاتھوں کو قینچی بناکر بتایا کہ مسلمان باہمی طور پر ایسےملے جلے رہتے ہیں جس طرح عمارت کے پتھر ایک دوسرے کو اٹھائے رہتے ہیں، یاگہرے غور وخوض کی وجہ سے بے ساختہ ایسا ہوجائے۔ جیسا کہ ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے ایسے حالات میں تشبیک کی ممانعت نہیں ہے۔
نوٹ:۔ حدیث ابوہریرہ ؓ سےمتعلق دیگر مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
477
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
482
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
482
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
482
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
(تشبيك)ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے کو کہتے ہیں جسے اردو میں انگلیوں کی قینچی یا ان کا جال بنانا کہاجاتاہے۔بعض روایات میں اس کی ممانعت آئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان روایات کی صحت محل نظر ہے یا وہ دورانِ نماز میں ایسا کرنے پر محمول ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات ضرورت کے پیش نظر تمثیل کے لیے ایسا کیا ہے جیساکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی درج ذیل پیش کردہ روایات سے واضح ہوتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں زوال کے بعد کی نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی اور دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد مسجد میں گاڑھی ہوئی ایک لکڑی کی طرف گئے اور اس پر ٹیک لگا لی، گویا آپ ناراض ہوں اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل فرمایا اور اپنا دایاں رخسار بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ لیا۔ جلد باز لوگ تو مسجد کے دروازوں سے نکل گئے اور مسجد میں حاضر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا: کیا نماز کم ہو گئی ہے؟ ان لوگوں میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ بھی موجود تھے، مگر ان دونوں نے آپ سے گفتگو کرنے سے ہیبت محسوس کی۔ ایک شخص جس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے اور اسے ذوالیدین کہا جاتا تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم ہو گئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز ہی کم کی گئی ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا ذوالیدین صحیح کہتا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ آگے بڑھے اور جتنی نماز رہ گئی تھی اسے ادا کیا، پھر سلام پھیرا۔ اس کے بعد آپ نے تکبیر کہی اور سجدہ سہو کیا جو عام سجدے کی طرح یا اس سے کچھ لمبا تھا۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور اللہ أکبر کہا۔ پھر اللہ أکبر کہہ کر دوسرا سجدہ کیا جو اپنے عام سجدوں کی سطح یا اس سے کچھ طویل تھا۔ پھر سر اٹھا کر اللہ أکبر کہا اور سلام پھیر دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ پہلی حدیث میں واقد اپنے والد محمد بن زید سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا۔اس روایت میں یہ شک تھا کہ ابن عمر ؓ سے بیان کی گئی ہے یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے ؟امام بخاری ؒ نے اس شک کو دور کرنے کے لیے نیز تشبیک کی وجہ بتانے کے لیے دوسری روایت بیان کی کہ عاصم بن محمد نے یہ روایت اپنے والد محمد بن زید سے سنی، لیکن وہ اسے یاد نہ رہی، پھران کی بھائی واقد بن محمد نے ٹھیک ٹھیک طریقے پر محمد بن زید ہی سے روایت بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اے عبداللہ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم ایسے لوگوں کے درمیان رہ جاؤ گے جو کوڑے کرکٹ اور بھوسے کی طرح ہوں گے؟‘‘ اس روایت سے شک دور ہوگیا کہ اسے بیان کرنے والے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بلکہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ہیں۔ پھر تشبیک کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مضمون سمجھانے کے لیے تمثیل کے طور پر انگلیوں کوانگلیوں میں ڈالا۔ چنانچہ یہ روایت امام حمیدی ؒ کی کتاب الجمع بین الصحیحین میں بایں اضافہ نقل ہوئی ہے کہ ان ردی اور بے کار لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ ان کے عہد وپیمان اور ان کی امانتیں تباہ ہوچکی ہوں گی اور وہ اس طرح ہوگئے ہوں گے، پھر آپ نے’’اس طرح‘‘ کی وضاحت کے لیے اپنی انگلیوں کوقینچی بنایا۔ (فتح الباری:732/1) 2۔ بعض روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتا ہے،پھر مسجد کی طرف جانے کی نیت لے کر گھر سے نکلتاہے تو وہ اپنی انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالے کیونکہ وہ نماز ہی میں ہے۔‘‘(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:386) ابن ابی شیبہ میں مزید وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے توتشبیک نہ کرے کیونکہ یہ عمل شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں۔ امام بخاری ؒ نے یہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ جن روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔ ان کی صحت محل نظر ہے یا وہ ممانعت حالت نماز پر محمول ہے، نیز اگر کسی صحیح مقصد کے پیش نظر کبھی ایسا کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک مقصد کی وضاحت کے لیے تشبیک فرمائی۔ امام بخاری ؒ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت سے ثابت کیا کہ ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔ پھر حدیث ابوہریرہ ؓ سے ثابت فرمایا کہ مسجد میں ایسا عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر ابن منیر نے کہا ہے کہ ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ منع کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ فضول اور بے کار طور پر ایسا کرنا منع ہے، اگر کسی حکمت کے پیش نظر ایسا کیا جائے تو جائز ہے، مثلاً: اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث میں ہے، یا تفہیم کے لیے تمثیل کے طور پر معنویات کو محسوسات میں تبدیل کرنے کے لیے ایسا کیاجائے۔ جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو باہم شیر وشکر رہنے کے متعلق بیان فرمایا، پھر ہاتھوں کو قینچی بناکر بتایا کہ مسلمان باہمی طور پر ایسےملے جلے رہتے ہیں جس طرح عمارت کے پتھر ایک دوسرے کو اٹھائے رہتے ہیں، یاگہرے غور وخوض کی وجہ سے بے ساختہ ایسا ہوجائے۔ جیسا کہ ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے ایسے حالات میں تشبیک کی ممانعت نہیں ہے۔
نوٹ:۔ حدیث ابوہریرہ ؓ سےمتعلق دیگر مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ ابن عون نے خبر دی، انھوں نے محمد بن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، انھوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں دوپہر کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی۔ ( ظہر یا عصر کی ) ابن سیرین نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس کا نام تو لیا تھا۔ لیکن میں بھول گیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بتلایا کہ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ایک لکڑی کی لاٹھی سے جو مسجد میں رکھی ہوئی تھی آپ ﷺ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں اور آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور آپ نے اپنے دائیں رخسار مبارک کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سہارا دیا۔ جو لوگ نماز پڑھ کر جلدی نکل جایا کرتے تھے وہ مسجد کے دروازوں سے پار ہو گئے۔ پھر لوگ کہنے لگے کہ کیا نماز کم کر دی گئی ہے۔ حاضرین میں ابوبکر ؓ اور عمرؓ بھی موجود تھے۔ لیکن انھیں بھی آپ سے بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انھیں میں ایک شخص تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور انھیں ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ انھوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا: کیا ذوالیدین صحیح کہہ رہے ہیں۔ حاضرین بولے کہ جی ہاں! یہ سن کر آپ ﷺ آگے بڑھے اور باقی رکعتیں پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور سہو کا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی لمبا سجدہ۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ پھر تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی، لوگوں نے بار بار ابن سیرین سے پوچھا کہ کیا پھر سلام پھیرا تو وہ جواب دیتے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ عمران بن حصین کہتے تھے کہ پھر سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث ’’حدیث ذوالیدین‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ایک بزرگ صحابی خرباق ؓ نامی کے ہاتھ لمبے لمبے تھے۔ اس لیے ان کو ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سہواً بات کرلینے سے یامسجد سے نکل جانے سے یا نماز کی جگہ سے چلے جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، یہاں بھی آنحضرت ﷺ کا ہاتھوں کی انگلیوں کو قینچی کرنا مذکور ہے جس سے اس حالت کا جواز مسجد اورغیرمسجد میں ثابت ہوا۔ یہی حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد ہے۔ باقی مباحث متعلق حدیث ہذا اپنے مقامات پر آئیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrates Ibn Sirin (RA): Abu Hurairah (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) led us in one of the two 'Isha' prayers ( Abu Hurairah (RA) named that prayer but I forgot it)." Abu Hurairah (RA) added, "He prayed two Rakat and then finished the prayer with Tasllm. He stood up near a piece of wood Lying across the mosque and leaned on it in such a way as if he was angry. Then he put his right hand over the left and clasped his hands by interlacing his fingers and then put his J right cheek on the back of his left hand. The people who were in haste left the mosque through its gates. They wondered whether the prayer was reduced. And amongst them were Abu Bakr (RA) and 'Umar but they hesitated to ask the Prophet. A long-handed man called Dhul-Yadain asked the Prophet, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Have you; forgotten or has the prayer been reduced?' The Prophet (ﷺ) replied, 'I have neither forgotten nor has the prayer been reduced' The Prophet (ﷺ) added, 'Is what Dhul Yadain has said true?' They (the people) said, 'Yes, it is true.' The Prophet (ﷺ) stood up again and led the prayer, completing the remaining prayer, forgotten by him, and performed Talsrm, and then said, 'Allahu Akbar.' And then he did a prostration as he used to prostrate or longer than that. He then raised his head saying, 'Allahu Akbar; he then again said, 'Allahu Akbar', and prostrated as he used to prostrate or longer than that. Then he raised his head and said, 'Allahu Akbar.' " (The subnarrator added, "I think that they asked (Ibn Sirin) whether the Prophet (ﷺ) completed the prayer with Taslim. He replied, "I heard that 'Imran bin Husain had said, 'then he (the Prophet) did Taslim.")