تشریح:
اس حلقہ میں عام دنیاوی گفتگو ہو یا علمی درس وتدریس سب ہی ممنوع ہیں۔ درس وتدریس اگرچہ شرعا مستحب عمل ہے مگر جمعہ کے روز نماز سے پہلے صحیح نہیں۔ اس کی بجائے نماز اور اذکار مسنونہ میں مشغول ہونا چاہیے۔ اس لئے مسنون خطبہ سے پہلے لوگوں کو کس حلقے میں جمع کرنا خلاف سنت ہے۔ کجا یہ کہ خطیب ہی مسنون خطبے سے پہلے منبر پر بیٹھ کر بیان یا تقریر کے نام سے وعظ شروع کر دے۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہ ہوگا۔ اس طرح عدد کے لحاظ سے بھی یہ تین خطبے ہو جائیں گے، حالانکہ سنت یہ ہے کہ خطبے دو ہی ہوں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وقال الترمذي: حديث حسن ، وصححه ابن خزيمة وأبو بكر بن العربي) إسناده: حدئنا مسدد: ثنا يحيى عن ابن عَجْلان عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده.
قلت: وهذا إسناد حسن؛ للخلاف المعروف في عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، كما سبق تحريره. والحديث أخرجه الإمام أحمد في المسند (2/179) : ثنا يحيى عن ابن عجلان... به. وأخرجه البيهقي (2/448 و 3/234) من طرق أخرى عن ابن عجلان... به مفرقاً. وأخرجه النسائي (1/117) ، والترمذي (2/139/322) ؛ دون إنشاد الضالة. وقال الترمذي: حديث حسن . ولابن ماجه (1/348) منه الجملة الأخيرة منه. ولأحمد في رواية (2/212) الجملة الأولى منه. والحديث؛ صححه ابن خزيمة وأبو بكر بن العربي؛ كما ذكر الشيخ أحمد شاكر في تعليقه على الترمذي .