تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغولیت کے باعث انہیں موقع نہیں ملتا تھا کہ روزے رکھ سکیں حتی کہ شعبان آ جاتا اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے روزے رکھتے تھے تو انہیں بھی قضا کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔
(2) اس یقین پر کہ روزے کی قضا کرنے کا موقع مل جائے گا، تاخیر کرنا مباح ہے۔
(3) شوہر کی خدمت کا اہتمام کرنا بیوی کے فرائض میں شامل ہے۔
(4) اگر رمضان آ جائے اور قضا نہ کر سکے تو رمضان کے بعد قضا کرے۔ اس صورت میں کچھ صحابہ و تابعین وغیرہم کا قول ہے کہ قضا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے اور کچھ کہتے ہیں کہ سوائے قضا کرنے کے اور کچھ لازم نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وابن خزيمة في صحاحهم ، وابن الجارود في المنتقى ) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن يحيى بن سعيد عن أبي سلمة بن عبد الرحمن: أنه سمع عائشة رضي الله عنها تقول... فذكره.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في الموطأ (1/286) . وأخرجه البخاري (4/154) ، ومسلم (3/154- 155) ، وابن ماجه (1/512) ، والبيهقي (4/252) من طرق أخرى عن يحيى بن سعيد... به. وله طريق أخرى عن أبي هريرة، خرجتها في الإرواء (944) . والحديث أخرجه عبد الرزاق أيضاً في مصنفه (7676) ، وكذا ابن أبي شيبة في مصنفه (3/98) . وله عندهما طريق أخرى عن عائشة رضي الله عنها.