تشریح:
1۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حمیت اور حمایت میں اپنی جان وار دینا اور اسی کےلئے اپنی محبت اور غصے کے جذبات کا اظہار کرنا ایمان کامل کی علامت اور اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت ہے۔
2۔ نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ مگر عمرو بن اقیش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے سیکھنے اور ادا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تو اس لئے معذور سمجھے گئے۔
3۔ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام ایک عملی اور باضابطہ دین ہے۔ اس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت ومعصیت کا کوئی تصور نہیں اور نہ حرام کی گنجائش ہے۔ اسی وجہ سے حضرت عمر و نے اپنے اسلام کو موخر کیا۔ یہ ان کی سعادت تھی کہ اللہ عزوجل نے ان کو مہلت دی۔ اور وہ اسلام اور پھر شہادت سے بہرہ ور ہوگئے۔
4۔ یہ واقعہ کسی شخص کو اپنا اسلام یا گنا ہ سے توبہ کو موخر کرنے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ نہ معلوم مطلب پورا ہونے تک زندگی کی مہلت بھی ملے گی یا نہیں۔ یا کہیں نیت ہی نہ بدل جائے۔ یا حالات سازگار نہ رہیں۔ اور پھر اسلام یا توبہ سے محروم رہ گیا تو ہمیشہ کی محرومی کا سامنا ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه الحاكم على شرط مسلم! ووافقه الذهبي !) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: حدثنا حماد: أخبرنا محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال مسلم؛ إلا أنه إنما أخرج لمحمد ابن عمرو مقروناً. والحديث أخرجه الحاكم (2/113 و 3/28) ، وعنه البيهقي (9/167) من طريق أخرى عن موسى بن إسماعيل... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي!