تشریح:
1۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ اور اب بھی ان قوموں سے متعلق ہے۔ جن کو اسلام کی دعوت واضح طور سے نہ پہنچی ہو۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث: 2541 و صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 1730 و سنن أبي داود، حدیث: 2633)
2۔ دین اسلا م کی دوسرے دینوں سے آویزش صرف اور صرف اللہ کی مخلوق تک اس کا کلمہ پہنچانے اور غالب کرنے کے لئے ہے۔ اس میں محض ملکوں کو فتح کرنا یا لوگوں کو اپنے تابع کرنا نہیں ہے۔
3۔ امیر مجاہدین (اور اس طرح دیگر مفتیان اور مجتہدین) کا فیصلہ بالعموم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دیئے ہوئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان میں سے اس کے حق یا خطا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ (ان اجتہادی امور میں) عین یہی دعویٰ کرنا کہ یہی اللہ کا فیصلہ ہے۔ بالکل غلط ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے صادر ہونے والے فیصلے اور احکام عین اللہ کے فیصلے ہوتے تھے۔ اور عین شریعت ہوتے تھے کیونکہ ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ (النجم: 3۔4) آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے مگر جو اللہ کی وحی ہوتی ہے اور اجتہادی امور میں جہاں کہیں کوئی خطا ہوتی بھی تو فورا ً اس کی اصلاح ہوجاتی تھی نبی کریم ﷺکے بعد کسی بھی امتی کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه مسلم وأبو عوانة وابن الجارود. وقال الترمذي: حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن سليمان الأنباري: ثنا وكيع عن سفيان عن علقمة ابن مَرْثَد عن سليمان بن بريدَةَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير الأنباري شيخ المؤلف، وهو ثقة. وقد توبع من جمع، منهم الإمام أحمد (5/352) : ثنا وكيع... به. وسفيان: هو الثوري. والحديث أخرجه البيهقي (9/184) من طريق المؤلف. ورواه هو، ومسلم وأبو عوانة وغيرهم من طرق أخرى عن سفيان... به. وهو مخرج في إرواء الغليل (1247) من مصادر عديدة من دواوين السنة؛ فليراجعه من شاء الوقوف عليها.