1۔ یہ اموال بنو نضیر کے تھے جو بوجہ مال فے ہونے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھے۔ آپ اپنا اور اہل بیت کےلئے سال کا خرچ لے کر باقی دیگرمصالح جہاد اور ضرورت مند مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جایئں وہ سب صدقہ ہوتاہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم میں تو تھا۔ مگر شاید وہ سمجھتے تھے کہ اس عموم میں ان کےلئے کوئی خصوصیت بھی ہے۔
3۔ سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جب یہ مسئلہ پیش ہوا تو آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس واضح دلائل کے ساتھ قائل کیا اور وہ مطمئن ہوگئیں کیونکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں یقین دلایا تھا کہ اس مال کا انتظام اور خرچ بالکل اسی طریقے سے ہوگا۔ اور انھیں پرہوگا جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔اس کے بعد دوبارہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہ کبھی اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ نہ کبھی یہ مسئلہ اٹھایا۔پھر حضرات عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مطالبہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طے شدہ مدوں پرخرچ کرنے کےلئے اس مال کا انتظام ان کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق پر چلتے رہنے کا عہد لے کر انہیں اس جایئداد کا منتظم بنا دیا۔
4۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ معاملہ کچھ اس طرح آیا۔ کہ حضرات عباس اورعلی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مابین کچھ الجھن پیدا ہوگئی تھی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غالب تھے۔ اور حضرات عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتے تھے کہ زیر انتظام جایئداد کو ان دونوں کےدرمیان واضح طور سےآدھا آدھا کر دیاجائے۔
5۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ تمام فریقوں کی طرف سے قبول کرنے اور اس کی اصابت وصحت کا دوبارہ حوالہ دے کر کہ یہ انتظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے مختلف نہ ہوگا۔ یہ فرمایا کہ یہ بغیر کسی تقسیم کے آپ دونوں کے مشترک انتظام ہی میں رہے گی۔ اور اس میں تقسیم تک کا نام نہیں آئے گا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان حضرات کے بعد آنے والوں کےلئے اس جایئداد کو بطوروراثت لے لینے کا کوئی امکان بھی نہ ہو۔
6۔ فتح الباری میں کچھ تاریخی شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے منتظم ہوگئے تھے۔ ان کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر بعد میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر علی بن حسین اور پھرحسن بن حسین پھر زید بن حسن رضوان اللہ عنہم اجمعین ان کے منتظم رہے۔ سب دو سو ہجری تک معاملہ اسی طرح چلتا رہا۔ بعد ازاں احوال بدل گئے۔ (فتح الباري، کتاب الفرض الخمس، شرح حدیث: 3094)
7۔ فدک اورخیبر کا انتظام سورہ حشر کی (مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ۔۔) (الحشر:7) بستیوں والوں کا جومال اللہ تعالیٰ تہمارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگا دے۔ وہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ کے مطابق خلیفہ کی تولیت میں رہا۔ غنیمت میں سے پانچویں حصے (خمس کا انتظام بھی اس طرح ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفۃ المسلمین بیت المال کا متصرف اور مذکورہ مدات میں خرچ کرنے کا پابند ہے۔
8۔ ذوی القربیٰ سے مرادرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار بنوہاشم اور بنوعبد المطلب ہیں۔
9۔ مذکورہ بالاحدیث (2963) سے یہ مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں کہ ہر قبیلے کا ریئس ہونا چاہیے۔ جو ان کے امورسے بہتر طور پر واقف ہو۔
10۔ باوقارآدمی کو اس کے نام سے یا اس کے نام کو مخفف (مرخم) کرکے بھی پکارا جاسکتا ہے۔ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مالک کو مال کہہ کر پکارا مگر شرط یہ ہے کہ تحقیر مقصود نہ ہو۔
11۔ آدمی منصب دارمی سے معذرت بھی کرسکتا ہے۔
12۔ حاکم نرمی سے منصب سنبھالنے کےلئے کہہ سکتا ہے۔
13۔ حاکم حاضر ہونے والوں کا نظم ونسق قائم رکھنے کےلئے کسی کو مقرر کردے تو جائز ہے۔
14۔ حسب احوال امام اور حاکم کے روبرو بیٹھ جانا کوئی عیب کی بات نہیں۔
15۔ خیرکے کاموں میں سفارش کرنا عمدہ خصلت ہے۔
16۔ قاضی دلیل کی بنا پر اپنا فیصلہ دے۔ اور پھر فیصلہ دیتے ہوئے حسب ضرورت وجہ بتائے تو مناسب ہے۔
17۔ جائیداد حاصل کرنا اس سے فائدہ اٹھانا اور سال بھر کا خرچ وغیرہ پہلے جمع رکھنا جائز ہے اور یہ خلاف توکل بھی نہیں
18۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضروریات سے زائد کچھ چیز جمع نہ رکھا کرتے تھے۔ بلکہ سال بھر کے کم از کم خرچ میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے۔ اس لئے سال گزرنے سے پہلے نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی۔اور کئی کئی ماہ گھر میں چولہا نہ جلتا۔شدید ضرورت میں قرض لینا پڑ جاتا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت بھی اپنا حصہ تک صدقات میں خرچ کردیتے اور خود اختیاری فقر کی زندگی گزارتے تھے۔