قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابٌ أَيْنَ يَقُومُ الْإِمَامُ مِنْ الْمَيِّتِ إِذَا صَلَّى عَلَيْهِ)

حکم : صحیح 

3194. حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ نَافِعٍ أَبِي غَالِبٍ قَالَ كُنْتُ فِي سِكَّةِ الْمِرْبَدِ فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ مَعَهَا نَاسٌ كَثِيرٌ قَالُوا جَنَازَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ فَتَبِعْتُهَا فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ عَلَيْهِ كِسَاءٌ رَقِيقٌ عَلَى بُرَيْذِينَتِهِ وَعَلَى رَأْسِهِ خِرْقَةٌ تَقِيهِ مِنْ الشَّمْسِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا الدِّهْقَانُ قَالُوا هَذَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَلَمَّا وُضِعَتْ الْجَنَازَةُ قَامَ أَنَسٌ فَصَلَّى عَلَيْهَا وَأَنَا خَلْفَهُ لَا يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ لَمْ يُطِلْ وَلَمْ يُسْرِعْ ثُمَّ ذَهَبَ يَقْعُدُ فَقَالُوا يَا أَبَا حَمْزَةَ الْمَرْأَةُ الْأَنْصَارِيَّةُ فَقَرَّبُوهَا وَعَلَيْهَا نَعْشٌ أَخْضَرُ فَقَامَ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا نَحْوَ صَلَاتِهِ عَلَى الرَّجُلِ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ الْعَلَاءُ بْنُ زِيَادٍ يَا أَبَا حَمْزَةَ هَكَذَا كَانَ يَفْعَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ كَصَلَاتِكَ يُكَبِّرُ عَلَيْهَا أَرْبَعًا وَيَقُومُ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَعَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ يَا أَبَا حَمْزَةَ غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ غَزَوْتُ مَعَهُ حُنَيْنًا فَخَرَجَ الْمُشْرِكُونَ فَحَمَلُوا عَلَيْنَا حَتَّى رَأَيْنَا خَيْلَنَا وَرَاءَ ظُهُورِنَا وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ يَحْمِلُ عَلَيْنَا فَيَدُقُّنَا وَيَحْطِمُنَا فَهَزَمَهُمْ اللَّهُ وَجَعَلَ يُجَاءُ بِهِمْ فَيُبَايِعُونَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَلَيَّ نَذْرًا إِنْ جَاءَ اللَّهُ بِالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ مُنْذُ الْيَوْمَ يَحْطِمُنَا لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجِيءَ بِالرَّجُلِ فَلَمَّا رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُبْتُ إِلَى اللَّهِ فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُبَايِعُهُ لِيَفِيَ الْآخَرُ بِنَذْرِهِ قَالَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَتَصَدَّى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَأْمُرَهُ بِقَتْلِهِ وَجَعَلَ يَهَابُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يَصْنَعُ شَيْئًا بَايَعَهُ فَقَالَ الرَّجُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَذْرِي فَقَالَ إِنِّي لَمْ أُمْسِكْ عَنْهُ مُنْذُ الْيَوْمَ إِلَّا لِتُوفِيَ بِنَذْرِكَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَوْمَضْتَ إِلَيَّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يُومِضَ قَالَ أَبُو غَالِبٍ فَسَأَلْتُ عَنْ صَنِيعِ أَنَسٍ فِي قِيَامِهِ عَلَى الْمَرْأَةِ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا فَحَدَّثُونِي أَنَّهُ إِنَّمَا كَانَ لِأَنَّهُ لَمْ تَكُنْ النُّعُوشُ فَكَانَ الْإِمَامُ يَقُومُ حِيَالَ عَجِيزَتِهَا يَسْتُرُهَا مِنْ الْقَوْمِ قَالَ أَبُو دَاوُد قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ نُسِخَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ الْوَفَاءُ بِالنَّذْرِ فِي قَتْلِهِ بِقَوْلِهِ إِنِّي قَدْ تُبْتُ

مترجم:

3194. سیدنا نافع ابوغالب ؓ کا بیان ہے کہ میں ( بصرہ میں ) مربد محلہ کی ایک گلی میں تھا کہ ایک جنازہ گزرا ، اس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے ۔ لوگوں نے کہا : یہ عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ہے تو میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا ۔ میں نے ایک آدمی دیکھا جو ایک باریک سی اونی چادر اوڑھے ہوئے اپنے چھوٹے سے گھوڑے پر سوار تھا ، دھوپ سے بچاؤ کے لیے اس نے اپنے سر پر کپڑا رکھا ہوا تھا ۔ میں نے پوچھا یہ محترم بزرگ کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا : یہ ( صحابی رسول ) سیدنا انس بن مالک ؓ ہیں ۔ چنانچہ جب میت کو رکھا گیا تو سیدنا انس ؓ کھڑے ہوئے اور اس کا جنازہ پڑھایا ، میں ان کے پیچھے تھا میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی ۔ آپ اس میت کے سر کے مقابل کھڑے ہوئے اور چار تکبیریں کہیں ۔ آپ نے نماز میں طوالت کی ، نہ جلدی ۔ پھر بیٹھنے لگے تو لوگوں نے کہا : اے ابوحمزہ ! ( سیدنا انس ؓ کی کنیت ہے ) یہ ایک انصاری خاتون ( کا جنازہ ) ہے اور وہ اسے قریب لائے اور میت کے اوپر سبز رنگ کا پردہ تھا ۔ ( تابوت ن رکاوٹ جو عورت کی نعش پر رکھی جاتی ہے ) تو آپ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے اور جنازہ پڑھایا جیسے کہ مرد کا پڑھایا تھا پھر آپ بیٹھ گئے ۔ تو علاء بن زیاد نے پوچھا : اے ابوحمزہ ! کیا رسول اللہ ﷺ بھی ایسے ہی جنازہ پڑھایا کرتے تھے جیسے کہ آپ نے پڑھایا ہے کہ چار تکبیریں کہتے اور مرد کے لیے اس کے سر کے سامنے اور عورت کے لیے اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ پھر اس نے پوچھا : اے ابوحمزہ ! کیا آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں بھی شریک رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ میں آپ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھا کہ مشرکین نکلے اور ہم پر حملہ کر دیا حتیٰ کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے دیکھا ( ہم پسپا ہو گئے ) اور ان مشرکین میں ایک آدمی تھا جو ہمیں کچلے جا رہا تھا اور اس نے ہمیں توڑ کے رکھ دیا تھا ۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے انہیں پسپا کر دیا ۔ اور پھر ان لوگوں کو لایا گیا اور وہ اسلام پر بیعت کرنے لگے ۔ اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک آدمی نے کہا تھا : مجھ پر یہ نذر ہے کہ اگر اللہ اس آدمی کو لے آیا جو آج ہمیں کچلتا رہا ہے تو میں بالضرور اس کی گردن اڑاؤں گا ۔ رسول اللہ ﷺ ( یہ سن کر ) خاموش رہے اور اس آدمی کو لے آیا گیا ۔ جب اس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں اللہ کی طرف توبہ کرتا ہوں ۔ اور پھر آپ رکے رہے اور اس سے بیعت نہیں لی تاکہ وہ صحابی اپنی نذر پوری کر لے ۔ راوی کہتا ہے : اور وہ صحابی بھی رسول اللہ ﷺ کے سامنے آتا رہا تاکہ آپ ﷺ اسے اس شخص کو قتل کر دینے کا حکم ارشاد فرمائیں ۔ جب کہ وہ اپنے طور پر اس کو قتل کر دینے میں رسول اللہ ﷺ سے ہیبت میں تھا ۔ پس جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ صحابی کچھ نہیں کر رہا ہے تو آپ ﷺ نے اس سے بیعت لے لی ۔ پھر اس صحابی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میری نذر ( کا کیا ہو گا ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا ” میں تو اسی لیے رکا رہا کہ تو اپنی نذر پوری کر لے ۔ “ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیوں نہ کر دیا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” کسی نبی کو لائق نہیں کہ آنکھ سے اشارہ کرے ۔ “ ابوغالب کہتے ہیں : میں نے سیدنا انس ؓ کے اس عمل کے متعلق دریافت کیا جو وہ عورت کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے تھے ۔ تو لوگوں نے کہا کہ ( پہلے ) یہ اس لیے ہوتا تھا کہ میت پر تابوت نہیں رکھا جاتا تھا تو امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو جاتا تھا تاکہ اس کے لیے قوم سے پردہ بن جائے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان کہ ” مجھے لوگوں کے ساتھ قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ «لا إله إلا الله» کہہ دیں ۔ “ اس حدیث کی روشنی میں منسوخ ہے جس میں کہ قتل کی نذر پوری کر دینے کا بیان آیا ہے ۔ حالانکہ اس شخص نے کہہ دیا تھا کہ ” میں توبہ کرتا ہوں ۔ “