تشریح:
(1) نماز ان عبادت میں سے ہے کہ جبرائیل نے محض زبانی القاء کرنے کی بجائے عملی تربیت سے آپ کو تمام جزئیات سے آگاہ فرمایا۔
(2) ظہر کے وقت میں سایہ ’’تسمے کے برابر تھا۔،، اس سے اصلی سایہ کا اعتبار کرنے کی دلیل ملتی ہے۔
(3) عصر کا وقت ایک مثل کے بعد سے شروع ہوتا اور دو مثل پر ختم ہوجاتا ہے۔
(4) اس حدیث میں مغرب کا وقت ایک ہی بیان ہوا ہے۔ دوسری احادیث کی روشنی میں اس میں غروب شفق تک توسع ہے۔
(5) ان اوقات کو فقہی اصطلاح میں ’’اوقات ادا،، کہا جاتا ہے۔ باقی ’’اوقات قضا،، کہلاتے ہیں۔
(6) آپ سے پہلے انبیاء کے یہی اوقات ہیں۔،، کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے لیے بھی اسی طرح اوقات متعین کیے گیے تھے نہ کہ ان پر پانچ نمازیں فرض تھی۔ واللہ أعلم. اس سے نماز کے اوّل وقت اور آخری وقت کی تحدید وتعیین ہوجاتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ان دونوں اوقات میں ادا کی گئی نماز صحیح ہے اور اسی طرح دونوں اوقات کے درمیان کا وقت بھی نماز کا وقت ہے، یوں ہرنماز کے لیے تین اوقات کا اثبات ہوا۔ لیکن ان میں افضل وقت کون سا ہے؟ وہ دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ اوّل وقت ہے سوائے نماز عشاء کے، کہ اس کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے، نبی ﷺ کا اپنا عمل بھی یہی تھا۔