تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا لقب رحمۃ للعالمین ہے چنانچہ آپ نے امت کی مشقت کے پیش نظر ہر نماز کے ساتھ مسواک کی پابندی کا باقاعدہ حکم نہیں دیا۔ اگر حکم دے دیتے تو واجب ہو جاتی اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین واجب الاتباع ہیں۔ (2) نماز عشاء کو مؤخر کرنا افضل ضرور ہے مگر جماعت اگر جلدی ہو رہی ہو تو اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ (3) حضرت زید رضی اللہ عنہ کا شوق اتباع انتہائی قابل قدر ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذا قال الترمذي) . إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا عيسى بن يونس: ثنا محمد بن
إسحاق عن محمد بن إبراهيم التيمي عن أبي سلمة بن عبد الرحمن. وهذا إسناد رجاله ثقات؛ لكن ابن إسحاق مدلس وقد عنعنه؛ إلا أنه قد توبع كما يأتي؛ فالحديث صحيح. وقد أخرجه الترمذي أيضا، والبيهقي من طريق المصنف، وأحمد (4/114 و 116 و 5/193) من طرق عن محمد بن إسحاق... به، وزادا: ولأخرت صلاة العشاء بلى ثلث للليل . وقال للترمذي: حديث حسن صحيح . ثم إن له طريقاً أخرى عن أبي سلمة؛ فقال أحمد (4/116) : ثنا عبد الصمد قال: ثنا حرب- يعني: ابن شداد- عن يحيى: ثنا أبو سلمة... به. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث علقه البخاري في (الصيام) ، ووصله الطحاوي (1/26) من الوجه الأول.