قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ كَيْفَ الْأَذَانُ)

حکم : صحيح بتربيع التكبير في أوله 

507. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي دَاوُدَ ح، وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: أُحِيلَتِ الصَّلَاةُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، وَأُحِيلَ الصِّيَامُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ... وَسَاقَ نَصْرٌ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ. وَاقْتَصَّ ابْنُ الْمُثَنَّى مِنْهُ قِصَّةَ صَلَاتِهِمْ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَطْ قَالَ: الْحَالُ الثَّالِثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَصَلَّى –يَعْنِي: نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ -ثَلَاثَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ}[البقرة: 144]، فَوَجَّهَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى الْكَعْبَةِ. وَتَمَّ حَدِيثُهُ وَسَمَّى نَصْرٌ صَاحِبَ الرُّؤْيَا قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ -رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ-، وَقَالَ فِيهِ: فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ –مَرَّتَيْنِ-، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ –مَرَّتَيْن-،ِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ<، ثُمَّ أَمْهَلَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ مِثْلَهَا, إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: زَادَ بَعْدَ مَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَقِّنْهَا بِلَالًا<، فَأَذَّنَ بِهَا بِلَالٌ. وقَالَ فِي الصَّوْمِ: قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَيَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُم- إِلَى قَوْلِه- ِطَعَامُ مِسْكِينٍ}[البقرة: 183-184], فَمَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يُفْطِرَ وَيُطْعِمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا أَجْزَأَهُ ذَلِكَ، وَهَذَا حَوْلٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ- إِلَى- أَيَّامٍ أُخَرَ}،[البقرة: 185], فَثَبَتَ الصِّيَامُ عَلَى مَنْ شَهِدَ الشَّهْرَ، وَعَلَى الْمُسَافِرِ أَنْ يَقْضِيَ، وَثَبَتَ الطَّعَامُ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ اللَّذَيْنِ لَا يَسْتَطِيعَانِ الصَّوْمَ. وَجَاءَ صِرْمَةُ وَقَدْ عَمِلَ يَوْمَهُ.... وَسَاقَ الْحَدِيثَ.

مترجم:

507.

ابن ابی لیلیٰ، سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نماز اور روزے کے احوال میں تین تین تبدیلیاں آئی ہیں۔ نصر نے تفصیل سے حدیث بیان کی۔ اور ابن مثنی نے اس میں سے صرف نماز کے متعلق بیان کیا کہ لوگ پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے (اس) تیسرے حال کی تفصیل اس طرح بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ مدینے میں آئے اور تیرہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، تب اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ} ”بیشک ہم آپ کا آسمان کی طرف بار بار چہرہ اٹھانا دیکھتے ہیں تو ہم بالضرور آپ کا رخ آپ کے پسندیدہ قبلے کی طرف کر دیں گے، تو آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی جانب کر لیجئیے اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ اسی کی طرف کیا کرو۔“ نازل فرمائی۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے آپ کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ اور (ابن مثنی کی) حدیث (یہاں) مکمل ہو گئی۔ اور نصر بن مہاجر نے صاحب خواب کا نام ذکر کیا اور کہا کہ عبداللہ بن زید کے پاس ایک آدمی آیا جو کہ انصار میں سے تھا، اسی (نصر) کی روایت میں ہے۔ چنانچہ وہ آدمی (خواب میں) قبلہ رخ ہوا اور کہا «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة» دو بار «حى على الفلاح» دو بار «الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» پھر کچھ دیر ٹھہرا، پھر کھڑا ہوا اور اسی طرح کہا، مگر «حى على الفلاح» کے بعد «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کہا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”یہ سب بلال کو بتاؤ۔“ چنانچہ بلال ؓ نے اذان کہی۔ اور روزے کے بارے میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین روزے اور عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا {كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُم- إِلَى قَوْلِه- ِطَعَامُ مِسْكِينٍ} ”تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ گنتی کے ایام ہیں، تو جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں تو دوسرے دنوں میں ان کی گنتی پوری کرے اور جو اس کی طاقت رکھتے ہیں (اور روزہ نہیں رکھنا چاہتے) تو ان پر ایک مسکین کا طعام ہے۔“ چنانچہ جو چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا چھوڑ دیتا اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور یہ اس کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یہ ایک حال ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ- إِلَى- أَيَّامٍ أُخَرَ} ”رمضان کا مہینہ ایسا ہے کہ اس میں قرآن نازل کیا گیا۔ لوگوں کے لیے ہدایت ہے (جس میں) ہدایت کی روشن دلیلیں ہیں اور (حق و باطل میں) فرق کرنے والا ہے۔ سو تم میں سے جو اس مہینے کو پائے تو وہ اس کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا مسافر تو دوسرے دنوں میں اس کی گنتی پوری کرے۔“ اس سے لازم آیا کہ جو اس مہینے کو پائے اور مقیم ہو روزہ رکھے اور مسافر قضاء کرے۔ بوڑھا کھوسٹ اور بڑھیا جو روزے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے ذمے کھانا کھلانا ہوا۔ چنانچہ سیدنا صرمہ ؓ آئے اور وہ سارا دن کام کرتے رہے تھے۔ اور (نصر بن مہاجر نے) حدیث بیان کی۔