تشریح:
1۔ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز بالکل ناقص اور نا تمام رہتی ہے۔ جس کی تعبیر دوسری احادیث میں کچھ یوں ہے۔ (لا صلوةَ لمن لَمْ يَقرأْ بفاتحةِ الكتابِ) (صحیح بخاری۔ حدیث: 756۔ وصحیح مسلم۔حدیث: 394) اسماعیلی کی روایت میں جناب سفیان سے مروی ہے۔ (لا تجزئُ صلوةٌ لايُقرأُ فيها بفاتحةِ الكتابِ) (سنن دار قطني۔ حدیث: 1212) جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کافی نہیں ہوتی۔ فتح الباری۔ ابن خذیمہ۔ ابن حبان اور احمد میں ہے۔ (لا تقبل صلوةٌ لا يُقرأُ فيها بأُمِّ القرآنِ) (فتح الباری۔ شرح حدیث: 756)
2۔ جس نماز میں ام القرآن فاتحہ نہ پڑھی جائے۔ وہ قبول نہیں ہوتی اس قسم کے مختلف الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔ اس کا پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ الا یہ کہ کوئی پڑھنے سے عاجز ہو۔ اس حکم میں تمام قسم کی نمازیں (فرض۔ نفل۔ جنازہ۔ عید اور کسوف وغیرہ) اور تمام طرح کے نمازی۔ (منفرد۔ امام۔ مقتدی۔ حاضر اور مسافر) شامل ہیں۔
3۔ نفس میں پڑھنا اس سے مراد آواز نکالے بغیر زبان سے پڑھنا ہے۔ صرف ا ن الفاظ کا خیال اور تصور صحیح نہیں اسے کسی طرح قرائت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔نیز یہ مسئلہ حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب اور رائے محض نہیں۔بلکہ ان کا استدلال صریح اور صحیح فرمان نبویﷺ سے ہے۔
4۔سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کرتے ہوئے صرف اسی کی تقسیم کی گئی ہے۔اوراس تقسیم میں بسم اللہ کوشمار نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزو نہیں ہے۔
5۔ امام کے پیچھے ہونے کا اشکال آج کا نیا اشکال نہیں ہے۔ بلکہ تابعین کے دورسے ہے۔مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پڑھنے کا فتویٰ اور اس کی دلیل پیش فرما کر تمام اوہام کا ازالہ فرمادیاہے۔ نیز آیت کریمہ (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا) (اعراف: 104) جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو کا مفہوم بھی واضح کردیا کہ آہستہ سے پڑھو یعنی آواز نہ نکالو۔ اس میں انصات بھی ہے۔ اور قراءت پر عمل بھی نیز حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لَا تَفعلُوْا إِلَّا بِأُمِّ القُرآنِ یعنی امام کے پیچھے سورۃ تحہ کی قراءت کرو۔
6۔ سورۃ فاتحہ نماز کی سب ر کعات میں پڑھی جائے۔ جیسا کہ حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (مسئی الصلوۃ) میں آیا کہ (ثم افعل ذلكَ في صلوتِكَ كُلِّهَا) (صحیح بخاری۔ حدیث: 793 وصحیح مسلم۔ حدیث: 397) اور پوری نماز میں ایسا ہی کرو۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح؛ على شرط مسلم، وقد أخرجه كما يأتي.والحديث عند مالك في الموطأ (1/106- 107) ... بهذا الإسناد.وأخرجه عنه: مسلم (2/9- 10) ، وأبو عوانة (2/126) ، والبخاري في خلقأفعال العباد (ص 74) ، والنسائي (1/144- 145) ، وأحمد (2/460) كلهم عن مالك... به.وأخرج مسلم وأبو عوانة، والبخاري في جزاء القراءة (ص 19) من طرقأخرى عن العلاء... به.وكذلك أخرجه الترمذي (4/66) - وقال: حديث حسن -، وأحمد