Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Performing Wudu' From Brass Containers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
100.
سیدنا عبداللہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے آپ ﷺ کے لیے پیتل کے برتن میں پانی پیش کیا اور آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا۔
تشریح:
فائدہ: چونکہ پیتل اور کانسی کے برتنوں میں سونے کی سی رنگت ہوتی ہے اس لیے امام صاحب رحمہ اللہ نے اس شبہے کو زائل کرنے کے لیے یہ روایات پیش فرمائی ہیں۔ البتہ خالص سونے، چاندی یا ان سے ملمع شدہ برتن استعمال کرنا جائز نہیں ہیں۔ صرف ٹانکے کی حدتک جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذلك صححه الحاكم، ووافقه الذهبي. وأخرجه البخاري في صحيحه ) . إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا أبو الوليد وسهل بن حماد قالا: ثنا عبد العزيز بن عبد الله بن أبي سلمة عن عمرو بن يحيى عن أبيه عن عبد الله بن زيد. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه البخاري كما يأتي. والحديث أخرجه الحاكم (1/168) من طريق أبي عَتَّاب سهل بن حماد: ثنا عبد العزيز بن عبد الله بن أبي سلمة... به. وقال:
صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! وفيه: أن سهل بن حماد لم يخرج له البخاري؛ فهو على شرط مسلم وحده بهذا السند، وإنما صححناه على شرطهما؛ لأن المصنف قرن به أبا الوليد- وهو الطيالسي-، وهو من رجالهما.
وقد أخرجه البخاري (1/241- 242) ، وكذا ابن ماجه (1/174) ، والبيهقي (1/30) من طريق أحمد بن عبد الله بن يونس قال: ثنا عبد العزيز بن أبيوله عند البخاري والبيهقي تتمة بلفظ: فغسل وجهه ثلاثاً، ويديه مرتين مرتين، ومسح برأسه؛ فأقبل به وأدبر، وغسل رجليه. وهذه الزيادة عند المصنف من طريق أخرى عن عمرو بن يحيى، تأتي في
باب صفة وضوء النّبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (رقم 109) . (فائدة) : وأما حديث معاوية قال: أمرتي رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن لا آتي أهلي في غرة الهلال، وأن لا أتوضأ من النحاس، وأن أسق كلما قمت من سِنَتِي! فضعيف جدّاً؛ بل/موضوع: رواه الطبراني في الكبير ؛ وفيه عبيدة بن حسان؛ وهو منكر الحديث، كما قال الهيثمي في المجمع 1/215) . والحديث قال النذري في مختصره (رقم 90) : وأخرجه ابن ماجه ! فقصَّر؛ حيث لم يعزه البخاري.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے آپ ﷺ کے لیے پیتل کے برتن میں پانی پیش کیا اور آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: چونکہ پیتل اور کانسی کے برتنوں میں سونے کی سی رنگت ہوتی ہے اس لیے امام صاحب رحمہ اللہ نے اس شبہے کو زائل کرنے کے لیے یہ روایات پیش فرمائی ہیں۔ البتہ خالص سونے، چاندی یا ان سے ملمع شدہ برتن استعمال کرنا جائز نہیں ہیں۔ صرف ٹانکے کی حدتک جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے ایک پیتل کے پیالے میں آپ کے لیے پانی نکالا اور آپ ﷺ نے وضو کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Zayd (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) came upon us. We brought water for him in a brass vessel and he performed ablution.