Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Rules of Law about the Prayer during Journey
(Chapter: Combining Between Two Prayers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1219.
جناب عقیل نے اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی انہوں نے کہا اور مغرب کو مؤخر کر لیتے اور عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھتے، جبکہ شفق غروب ہو چکی ہوتی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وقد أخرجه مسلم وأبو عوانة في صحيحبهما ) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود المَهْرِيُّ. ثنا ابن وهب: أخبرني جابر بن إسماعيل عن عُقَيْل... بهذا الحديث بإسناده قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير المهري، وهو ثقة. ثم استدركت فقلت: جابر بن إسماعيل لم يذكروا له راوياً غير ابن وهب، ولا وثقه غير ابن حبان، وأخرج له ابن خزيمة في صحيحه ؛ فهو غير معروف، ولذا قال الحافظ فيه: مقبول ! وأورده ابن أبي حاتم في كتابه (1/1/501) برواية ابن وهب عنه، ولم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً، مشيراً بذلك إلى أنه لم يعرفه. لكن الحديث صحيح بالطريق الذي قبله، وبحديث معاذ الذي بعده. والحديث؛ أخرجه مسلم (2/151) ، وأبو عوانة (2/351) ، والبيهقي (3/161) من طرق عن ابن وهب... به؛ ولفظه: كان إذا عَجِلَ به السير؛ يؤخر الظهر إلى أول وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب...
دین اسلام کا ایک ستون نماز ہے اور یہ اسلام کا ایک ایسا حکم کہے جس کا کوئی مسلمان انکاری نہیں‘قرآن مجید اور احادیث میں اسے ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے نماز کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ‘خواہ جنگ ہو رہی ہو یا آدمی سفر کی مشکلات سے دو چار ہو یا بیمار ہو ہر حال میں نماز فرض ہے ‘تا ہم موقع کی مناسبت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔سفر میں نماز قصر کرنا یعنی چار فرض کی بجائے دو فرض ادا کرنا ‘جیسے ظہر‘ عصر اور عشاء کی نمازیں ہیں ‘یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے ‘لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا مستحب ہے سفر کی نماز سے متعلقہ چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
٭ظہر‘ عصر اور عشاءکی نمازوں میں دو دو فرض پڑھے جائیں مغرب اور فجر کے فرضوں میں قصر نہیں ہے۔
٭سفر میں سنتیں اور نوافل پڑھنا ضروری نہیں‘دوگانہ ہی کافی ہے ‘البتہ عشاء کے دوگانے کے ساتھ وتر ضروری ہیں۔اسی طرح فجر کی سنتیں بھی پڑھی جائیں کیونکہ ان کی فضیلت بہت ہے اور نبیﷺ سفر میں بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔
٭نماز قصر کرنا کتنی مسافت پر جائز ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت انس کی روایت ہے :’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر اختیار فرماتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔‘‘(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘حدیث:691) حافظ ابن حجر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ صریح حدیث ہے جو مدت سفر کے بیان میں وارد ہوئی ہے ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں راوی کوشک ہے تین میل یا تین فرسخ ؟اس لیے تین فرسخ کو راجح قرار دیا گیا ہے اس اعتبار سے 9 میل تقریباً 23،22 کلو میٹر مسافت حد ہو گی ۔یعنی اپنے شہر کی حدیث سے نکل کر 22 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر دوگانہ کیا جائے ۔
٭قصر کرنا اس وقت جائز ہے جب قیام کی نیت تین دن کی ہوگی اگر شروع دن ہی سے چار یا اس سے زیادہ دن کی نیت ہوگی ‘تو مسافر متصور نہیں ہوگا ‘اس صورت میں نماز شروع ہی سے پوری پڑھنی چاہیے ‘تا ہم دوران سفر میں قصر کر سکتاہے۔
٭نیت تین دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ س ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو تر دو کی صورت میں نمتاز قصر ادا کی جا سکتی ہے ‘چاہے اسے وہاں مہینہ گزر جاجائے۔
٭سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھی جا سکتی ہیں یعنی جمع تقدم (عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کرنا )اور جمع تاخیر(ظہر کو عصر کے وقت اور مغرب کو عشاء کے وقت میں ادا کرنا ) دونوں طرح جائز ہے۔
جناب عقیل نے اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی انہوں نے کہا اور مغرب کو مؤخر کر لیتے اور عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھتے، جبکہ شفق غروب ہو چکی ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سند سے منقول ہے البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The above mentioned tradition has also been reported by 'Uqail through a different chain of narrators. He said: He would delay the evening prayer till he combined the evening and the night prayers when the twilight disappeared.