Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Separating Between The Madmadah and Istinshaq)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
139.
جناب طلحہ اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب کہ آپ ﷺ وضو فرما رہے تھے اور پانی آپ ﷺ کے چہرے اور داڑھی سے سینے پر گر رہا تھا۔ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے میں فرق کرتے تھے (یعنی کلی کے لیے علیحدہ اور ناک کے لیے علیحدہ پانی لیتے تھے)۔
تشریح:
اس حدیث میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ہے، اسے امام نووی، حافظ ابن حجر اور محقق عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمهم الله نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ لہٰذا مسنون اور مستحب عمل یہی ہے کہ ایک ہی چلوپانی لے کر کلی کی جائے اور اسی ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی صراحت موجود ہے، البتہ بعض علماء اس طرف بھی گئے ہیں کہ کلی اور ناک کے لیے علیحدہ علیحدہ دو چلو بھی لینا جائز ہے لیکن ایک چلو سے کلی اور ناک صاف کرنے والی روایت سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، وضعفه الصنف وغيره، كما سبق (رقم 15) ، وكذلك ضعفه البيهقي، وقال النووي: ولم يثبت في الباب حديث أصلاً ) . إسناده: حدثنا حميد بن مسْعدة: حدثا مُعْتمِرٌ قال: سمعت ليثاً يذكر عن طلحة...
وهذا إسناد ضعيف؛ من أجل ليث ووالد طلحة وجده؛ وقد سبق بيان ذلك قريباً (رقم 15) . وقال ابن أبي حاتم في العلل (رقم 131) : سا لت أبي عن هذا الحديث؟ فلم يثبته، وقال: طلحة هذا يقال: إنه رجل من الأنصار، ومنهم من يقول: هو طلحة بن مصرف؛ ولو كان طلحة بن مصرف لم يُخْتلفْ فيه . والحديث أخرجه البيهقي من طريق المؤلف، وضعفه. ولم تجد لهذا الحديث شاهداً يقويه، بل ثبت عند المصنف ما يخالفه من حديث علي رضي الله عنه في صفة وضوء النبي عليه الصلاة والسلام بلفظ: ثم تمضمض واستنثر ثلاثاً، فمضمض ونثر من الكف الذي يأخذ فيه...
الحديث. وإسناده صحيح؛ انظر (رقم 100) من الكتاب الأخر.وصح مثله من حديث عبد الله بن زيد في الصحيحين وغيرهما، وهو في الكتاب المذكور (رقم 110) ، ومن حديث ابن عباس رقم (126) . ولذلك قال النووي (1/360) : فهذه أحاديث صحاح في الجمع. وأما الفصل؛ فلم يثبت فيه حديث أصلاً، وإنما جاء فيه حديث طلحة بن مصرف، وهو ضعيف كما سبق . لكن قال الحافظ في التلخيص (1/400) : قلت: روى أبو علي بن السكن في صحاحه من طريق أبي وائل شقيق ابن سلمة قال: شهدت علي بن أبي طالب وعثمان بن عفان توضآ ثلاثاً ثلاثاً
وأفردا المضمضة من الاستنشاق، ثم قالا: هكذا رأينا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضأً. فهذا صريح في الفصل .
ثم وجدته في المختارة (1/126) من طريق ابن ثوبان عن عبْدة بن أبي لُبابة عن شقيق عن عثمان- وحده-. قلت: لكتي أشك في ثبوت ذكر المضمضة والاستنشاق في هذا الحديث! فقد أخرجه ابن ماجه (1/161) ، والطحاوي 1/17) من طريق ابن ثوبان عن عبدة بن أبي لبابة عن شقيق بن سلمة قال: رأيت عثمان وعلياً يتوضان ثلاتاً ثلاثاً، ويقولان: هكذا كان وضوء رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وإسناده حسن؛ وابن ثوبان: هو عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان، وهو حسن الحديث إذا لم يخالف. وهو عند الحاكم والدارقطني والبيهقي من طريق أخرى عن شقيق بن سلمة
عن عثمان وحده؛ بلفظ:فمضمض واستنشق ثلاثاً... الحديث، ليس فيه التفصيل المذكور عند أبي علي. وأصله عند المصنف في الكتاب الأخر (رقم 98) بإسناد حسن. واللّه تعالى أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب طلحہ اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب کہ آپ ﷺ وضو فرما رہے تھے اور پانی آپ ﷺ کے چہرے اور داڑھی سے سینے پر گر رہا تھا۔ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے میں فرق کرتے تھے (یعنی کلی کے لیے علیحدہ اور ناک کے لیے علیحدہ پانی لیتے تھے)۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ہے، اسے امام نووی، حافظ ابن حجر اور محقق عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمهم الله نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ لہٰذا مسنون اور مستحب عمل یہی ہے کہ ایک ہی چلوپانی لے کر کلی کی جائے اور اسی ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی صراحت موجود ہے، البتہ بعض علماء اس طرف بھی گئے ہیں کہ کلی اور ناک کے لیے علیحدہ علیحدہ دو چلو بھی لینا جائز ہے لیکن ایک چلو سے کلی اور ناک صاف کرنے والی روایت سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طلحہ کے دادا کعب بن عمرو یامی ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، اس وقت آپ وضو کر رہے تھے، پانی چہرے اور داڑھی سے آپ کے سینے پر بہہ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ آپ کلی، اور ناک میں پانی الگ الگ ڈال رہے تھے۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی «مضمضة» منہ کی کلی اور «استنشاق» ناک میں پانی ڈالنے، دونوں کے لئے الگ الگ پانی لے رہے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Grand father of Talhah (RA): I entered upon the Prophet (ﷺ) while he was performing ablution, and the water was running down his face and beard to his chest. I saw him rinsing his mouth and snuffing up water separately.