Abu-Daud:
Zakat (Kitab Al-Zakat)
(Chapter: How Much Sadaqah Should Be Given At The End Of Ramadan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1612.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع مقرر فرمایا۔ اور مذکورہ بالا روایت مالک کے ہم معنی بیان کیا۔ اور مزید کہا: چھوٹے اور بڑے کی طرف سے دیا جائے۔ اور حکم دیا کہ اسے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔ امام ابوداؤد ؓ نے بیان کیا کہ عبداللہ العمری عن نافع کی روایت میں «على كل مسلم» اور سعید الجمحی بواسطہ عبیداللہ عن نافع کی روایت میں «من المسلمين» کے لفظ بیان ہوئے ہیں۔ مگر مشہور یہ ہے کہ عبیداللہ کی روایت میں «من المسلمين» کے لفظ نہیں ہیں۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في صحيحه بإسناد المصنف .إسناده: حدثنا يحيى بن محمد بن السَكَنِ: ثنا محمد بن جَهْضَم: ثنا إسماعيل بن جعفر عن عمر بن نافع عن أبيه عن عبد الله بن عمر قال: فرض رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زكاة الفطر صاعاً. فذكر بمعنى مالك؛ وزاد. فذكره.قال أبو داود: رواه عبد الله العمري عن نافع قال: على كل مسلم ورواه سعيد الجُمَحِيّ عن عبيد الله عن نافع؛ قال فيه: من المسلمين. والمشهور عن عبيد الله؛ ليس فيه من المسلمين !
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات على شرط الشيخين؛ غير يحيى بن محمد بن السكن، فهو على شرط البخاري وحده؛ وقد أخرجه كما يأتي. والحديث أخرجه البيهقي (4/162) من طريق المصنف. والبخاري (3/287) ، والنسائي (1/346) ... بسند المصنف. والدارقطني، والبيهقي أيضا من طرق أخرى عن شيخ المصنف... به.
قلت: فهذه متابعة قويّة من عمر بن نافع لمالك على تلك الزيادة. وتابعه أيضا عبد الله بن عمر المكبر- كما علقه المصنف-، وقد وصله أحمد (2/114) : ثنا سُرَيج: ثنا عبد الله... به. ووصله الدارقطني أيضا، والبيهقي (4/163) مقروناً برواية مالك المتقدمة. وكذلك وصله ابن الجارود (356) ، لكن وقع فيه: (عبيد الله) - مصغراً-! وهو خطأ مطبعي. وتابعه أخوه عبيد الله المصغر- كما علقه المصنف أيضا-، وقد وصله أحمد أيضا (2/66 و 137) ، والحاكم (1/410- 411) عن سعيد بن عبد الرحمن الجُمَحِيَ عنه... به. وصححه الحاكم والذهبي. لكن الجُمَحِيَ قد خولف كما في الرواية المشهورة الآتية.
نماز اورز کو ۃ دین کے ایسے رکن ہیں جن کا ہر دور اور ہر مذہب میں آسانی تعلیمات کے پیروکاروں کوحکم دیا گیا ہے۔ گویا یہ دونوں فریقے ایسے ہیں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ہیں اور دین اسلام نے بھی زکوۃ کی اس اہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا اور اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا۔ قرآن مجید میں نماز کی اقامت اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم عموما ساتھ ساتھ ہے۔ دو درجن سے زائد مقامات پر قرآن کریم نے(اقيمو الصلاة) کے ساتھ (واتوا الزكوة) کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید کے اس اسلوب بیان سے واضح ہے کہ دین میں جتنی اہمیت نماز کی ہے اتنی ہی زکوة کی ہے۔ ان دونوں میں بایں طور تفریق کرنے والا کہ ایک پر عمل کرے اور دوسرے پرنہ کرے’ سرے سے ان کا عامل نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح زکوة بھی شریعت میں اتنا ہی مقام رکھتی ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار اعراض اور فرار مسلمانی کے زمرے سے نکال دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ زکوة کی فرضیت مشہور قول کے مطابق ہجرت کےدوسرے سال ہوئی۔
لغوی اعتبار سے زکوة کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک وصاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکوة میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکوة کی ادا گی سےبقیہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور عدم ادا ئیگی سے اس میں غرباء و مساکین کاحق شامل رہتا ہے جس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے۔ جیسے کی جائز اور حلال چیز میں ناجائز اور حرام چیز مل جائے تو وہ جائز اور حلال چیز کو بھی حرام کر دیتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ نے زکوۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کر دے۔“ (سنن ابی داود، الزكوة، باب في حقوق المال حديث: ۱۲۹۴) قرآن مجید میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے:) خذمن اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها((التوبة :103)اے پیغمبر!) ان کے بالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اوران کا تزکیہ کردیں‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زکوة وصدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ طہارت کس چیز سے؟ گناہوں سے اور اخلاق رزیلہ سے۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خودغرض ’ظالم متکبر’بخیل بد دیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکوۃ مال کی شدید محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم و کرم ہمدردی واخوت ایثار و قربانی اورفضل واحسان کے جذبات پیدا کرتی ہے اور انسان جب اللہ کے حکم پر زکوۃ ادا کرتا ہے تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (ان الحسنات يذهبن السيئات)( هود: ۱۳) بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔‘‘
زکوة کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکوة ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کی واقع ہوتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالی فرما دیتا ہے ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسانہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہو جاتی ہے۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا’’صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ۔‘‘(صحيح مسلم،البر،باب استحباب العفووالتواضع،حديث:2588)
مذکورہ گزارشات کے بعد زکوۃ وصدقات کے کچھ فضائل و برکات بیان کیے جاتے ہیں تا کہ قاری مسئلہ کی حقیقت کو کما حقہ سمجھ سکے حدیث قدسی ہے’’ اللہ تعالی فرماتا ہے (اے ابن آدم!) تو (میرےضرورت مند بندوں پر) خرچ کر میں (خزانہ غیب سے)تجھ کو دیتا رہوں گا۔“ (صحيح البخارى ، التوحيد،باب:35،حديث:7496)
اس کی بابت حضرت اسماءؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا( اللہ کی راہ میں کشادہ دلی سے) خرچ کرتی رہو اور گن گن کر مت رکھو ،اگر تم گن گن کر اور حساب کر کے خرچ کرو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر بند کر کے مت رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہی معاملہ کرے گا۔ اس لیے جتنی توفیق ہوفراخ دلی سےخرچ کرتی رہو۔‘‘(صحيح البخارى ، الهبة، باب: 5، حديث: 2591، والزكوة، باب: 22، حديث: 1434، وصحيح مسلم، الزكوة، باب الحث على الانفاق ، حديث: 1029)
صدقہ کی بابت نبیﷺ سے پوچھا گیا’ کون ساصدقہ اجر میں زیادہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’زیاده اجر وثواب والاصدقہ وہ ہے جو تندرستی کی حالت میں اس وقت کیا جائے جب انسان کے اندر دولت کی چاہت اور اسے اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو اور اسے خرچ کی صورت میں محتاجی کا خطرہ اور روک رکھنے کی صورت میں دولت مندی کی امید ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم سوچنے اور ٹالتے رہو یہاں تک کہ تمہارا آخری وقت آجائے اور اس وقت تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا مال فلاں کو اور اتنا فلاں کو( اللہ کےلیے) دے دیا جائے‘درآں حالیکہ اس وقت وہ مال ( تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں (وارثوں) کا ہو چکا ہو ۔(صحيح مسلم، الزكوة، باب بيان ان افضل الصدقة صدقة الصحيح الصحيح ، حديث: 1032)
ان فضائل و برکات کی پوری اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرا پہلو یعنی صدقات و خیرات سے پہلو تہی اور اعراض کی سخت وعید اور اس پر عذاب شدید کی تنبیہ سامنے نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اس نے اس کی زکوة نہ دی تو وہ دولت قیامت کے دن اس کے لیے گنجے سانپ کی شکل میں بنادی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے (یہ دونوں نشانیاں خت زہریلے سانپ کی ہیں) وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا پھر وہ سانپ اپنی دونوں باچھوں سے اس کو پکڑ کر کھینچے گا اور کہے گا: میں تیرا بال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد نبیﷺنے سورة آل عمران کی آیت (۱۸۰) تلاوت فرمائی وہ لوگ جو اللہ کے فضل وکرم سے حاصل کردہ مال میں بخل کرتے ہیں ( زکوۃ ادانہیں کرتے) یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے (نہیں) بلکہ یہ ان کے حق میں ( انجام کے لحاظ سے) بدتر ہے۔ یہ مال جس میں وہ بخل کرتے ہیں( اور اس کی زکوہ بھی نہیں نکالتے )قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق بنا کے ڈال دیا جائے گا۔‘‘(صحيح البخارى ، الزكوة، باب اثم مانع الزكوة حديث:1403)
حضرت ابوذرسے روایت ہے’ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ یا (فرمایا)قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جیسے بھی آپ نے حلف اٹھایا (حلف کے الفاظ صحابی کوصحیح یاد نہیں رہے۔) جس آدمی کے پاس بھی کچھ اونٹ گائیں یا بکریاں ہوں وہ ان کا حق (زکوۃ) ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن ان جانوروں سمیت لایا جائے گا یہ جانور دنیا کے مقابلے میں زیادہ قد آور اور زیادہ موٹے تاز ہ ہوں گے وہ اسے اپنے پیروں سے روند یں گے اور اپنے سینگوں سے ٹکریں مارتے ہوئے گزریں گے جب آخرتک سب گزر جائیں گے تو پہلے والے پھر اسی طرح اس پر لوٹائے جائیں گے حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ یہی معاملہ جاری رہے گا ۔“((صحيح البخارى، الزكوة، باب زكوة البقر، حديث:1460)
قرآن کریم کی یہ آیت بھی انہی لوگوں کی وعید میں نازل ہوئی ہے جو اپنے سونے چاندی اوراپنے مال ودولت میں سےزکوۃ نہیں نکالتے۔( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ ) (التوبۃ:9/34۔35)’’اورجولوگ سوناچاندی بطورخزانہ جمع کرتےہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے توانہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیجیے۔ جس دن کہ ان کی دولت کودوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا‘پھراس سےان کے ماتھے ‘ان کےپہلو اوران کی پیٹھیں داغی جائیں گی(اورکہاجائےگا)یہ ہے تمہاری وہ دولت جسےتم نے جوڑجوڑ کر رکھا تھا‘پس تم اپنی اس دولت اندوزی کاآج مزاچکھو۔‘‘لیکن اس وعیدسےوہ لوگ خارج ہیں جواپنے مال میں سےزکوۃ نکالتے اورصدقہ خیرات کرتےرہتےہیں۔
اس اخروی عقوبت کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوۃ کی ادائیگی سے اعراض کرتی ہے امساک باراں اور قحط سالی جیسے ابتلاء سے دوچار کر دیتا ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے: "جو قوم زکوة سے انکار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔“ ( (الطبرانى فى الأوسط، حديث: 4577-6788، وصحيح الترغيب للألبانى:1/467)
ایک دوسری روایت میں ہے جو لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے وہ باران رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر بھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔“ (سنن ابن ماجه ، باب العقوبات،حديث:4019، وحسنه الألبانى فى الصحيحة حديث:106-1/216-217)
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کا مطالبہ صرف ز کوٰۃ ہی پرختم نہیں ہو جاتا بلکہ صاحب استطاعت کو ہر ضرورت کے موقع پر الله کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ۔ قرآن مجید نے اس لیے متعدد مقامات پر زکوۃ‘‘ کی بجائے انفاق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو عام ہے اور زکوۃ اور دیگر صدقات دونوں کو محیط ہے۔(متقين)کی صفات میں بتایاگیا ہے (وممارزقنهم ينفقون) (البقرة:3)’’اوروہ ہمارےدیےہوئے مال میں سے انفاق (خرچ)کرتےہیں۔ ’’نیزفرمایا(يايها الذين امنوا انفقوامن طيبت ماكسبتم) (البقرة :467)’’اےایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی سے انفاق (خرچ )کرو۔‘‘
زکوۃ وصدقات دیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے اولین مستحق آدمی کے درجہ بدرجہ اپنے قرابت دار ہیں ۔ قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی جس میں غریب و بے سہارا افراد کی اعانت و دست گیری شامل ہے حقوق العباد میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سب سے پہلے آدمی کے والدین ہیں اور دوسرے نمبر پر اس کے دیگر قریب ترین رشتہ دار۔ اگر انسان کے پاس اہل خانہ اور والدین کی کفالت کے بعد کچھ مال بچ رہے تو اسے درجہ بدرجہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اسے شریعت میں صلہ رحمی کہتے ہیں ۔ اس سے دوگنا اجر ملے گا ایک صلہ رحمی کا اور دوسراصدقے کا۔
زکوة اس مال میں سے نکالی جائے جس میں انسان کو ملکیت تامہ حاصل ہو ملکیت تامہ کا مطلب ہے کہ وہ مال اس کے دست تصرف میں ہو۔ اس کو جس طرح چاہے خرچ کرے اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہ ہو اور اس مال کے تجارتی فوائد میں وہ بلا شرکت غیرے ما لک ہو۔
مشترکہ (لمٹیڈ) کمپنیوں میں سے سب کے مجموعی مالوں میں سے بھی سب کی طرف سے زکوۃ نکالی جانی چاہے۔ (ملخص از کتاب ’’زکوٰۃ وعشر‘‘تالیف حافظ صلاح الدین یوسف، مطبوعہ دارالسلام)
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع مقرر فرمایا۔ اور مذکورہ بالا روایت مالک کے ہم معنی بیان کیا۔ اور مزید کہا: چھوٹے اور بڑے کی طرف سے دیا جائے۔ اور حکم دیا کہ اسے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔ امام ابوداؤد ؓ نے بیان کیا کہ عبداللہ العمری عن نافع کی روایت میں «على كل مسلم» اور سعید الجمحی بواسطہ عبیداللہ عن نافع کی روایت میں «من المسلمين» کے لفظ بیان ہوئے ہیں۔ مگر مشہور یہ ہے کہ عبیداللہ کی روایت میں «من المسلمين» کے لفظ نہیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع مقرر کیا، پھر راوی نے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث ذکر کی، اس میں «وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ» ”ہر چھوٹے اور بڑے پر (صدقہ فطر واجب ہے) اور آپ نے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے اس کے ادا کر دینے کا حکم دیا) کا اضافہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبداللہ عمری نے اسے نافع سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں «على كل مسلم» کے الفاظ ہیں (یعنی ہر مسلمان پر لازم ہے)۱؎ اور اسے سعید جمحی نے عبیداللہ (عمری) سے انہوں نے نافع سے روایت کیا ہے اس میں «من المسلمين» کا لفظ ہے حالانکہ عبیداللہ سے جو مشہور ہے اس میں «من المسلمين» کا لفظ نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ کافر غلام یا کافر لونڈی کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا ضروری نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abd Allah b. 'Umar (RA) said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم)prescribed the sadaqah at the end of Ramadan one sa’. The narrator then transmitted the tradition like the one narrated by Malik. This version adds : “Young and old. He gave command that this should be paid before the people went out to prayers”. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: ‘Abd Allah al-‘Umari narrated it from Nafi’ through his chain: “on every Muslim.” The version of Sa’id al-Jumahi has: “Among the Muslims”. The well-known version transmitted by ‘Ubaid Allah does not mention the words “among the Muslims”.