باب: ان حضرات کی دلیل جو گندم کا آدھا صاع بیان کرتے ہیں
)
Abu-Daud:
Zakat (Kitab Al-Zakat)
(Chapter: The View That Half A Sa' Of Wheat Is To Be Given As Sadaqah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1619.
جناب عبداللہ بن ثعلبہ یا ثعلبہ بن عبداللہ ابی صعیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر دو افراد چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام، مرد اور عورت کی طرف سے ایک صاع گندم ہے۔ چنانچہ جو تم میں سے غنی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پاک کر دے گا اور جو فقیر ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ عطا فرمائے گا جو اس نے دیا۔“ سلیمان نے اپنی روایت میں ”غنی اور فقیر“ کا اضافہ کیا ہے۔ (یوں کہا: آزاد غلام، مرد عورت ”غنی اور فقیر“ کی طرف سے)۔
تشریح:
زکوۃ المال کی طرح رسول اللہ ﷺ نے زکوۃ الفطر بنیادی غذائی اجناس سے ایک صاع کے برابر ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضاحت سے بیان فرماتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺکے عہد میں آپﷺ کے حکم پر ہم کھانے کی اشیاء میں سے ایک صاع زکواۃ الفطر ادا کرتے تھے۔ اور ہمارے کھانے کی اجناس جو کشمش۔ کھجور۔ اور پنیر تھیں۔ (صحیح البخاري، صدقة الفطر، باب الصدقة قبل العید، حدیث: 1510) یعنی اس دور میں گندم عام نہ تھی۔ بعد میں جب گندم عام ہوگئی۔ تو زکوۃ الفطر اس میں ادا کی جانے لگی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے۔ کہ لوگوں نے قیمت کو بنیاد بنا کر گندم سے ایک صاع یا چار مد کی بجائے دو مد یا نصف صاع ادا کرنا شروع کر دیا۔ (صحیح البخاري، صدقة الفطر۔ باب الصدقة الفطر صاعا من تمر، حدیث: 1507) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہی وضاحت فرماتے ہیں۔ کہ گندم میں آدھا صاع دینے کا طریقہ لوگوں میں اس وقت شروع ہوا جب (فلما جاء معاوية وجاءت السمراء......) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور سمراء یعنی شامی گندم آئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے میں اس گندم کا ایک مد (دوسری غذائی اجناس کے) دو مدوں کےبرابر ہے۔ (صحیح البخاري، صدقة الفطر، باب صاع من زبیب، حدیث: 1508) ابو دائود میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (حدیث نمبر 1614) میں یہ کہا گیا ہے کہ گندم کے آدھے صاع کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقی اشیاء کے نصف صاع کے برابرقرار دیا تھا۔ لیکن یہ روایت بعض علمائے جرح وتعدیل کے نزدیک تو سرے سے ضعیف ہے۔ (ضعیف أبي داود، للألباني، الزکوة، باب کم یؤدی في صدقة الفطر) ورنہ اس پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے راوی عبد العزیز بن ابی رواد کا وہم قرار دیا ہے۔ (فتح الباري، الزکاة، باب الصدقة الفطر صاعا من تمر) نصف صاع کی رائے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےعلاوہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔ لیکن اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع نہیں کیونکہ بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رائے کے مخالف ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جس طرح یہ مروی ہے کہ آپ نے قیمت کا لحاظ کرتے ہوئے ایک وقت میں نصف صا ع کی اجازت دی۔ وہاں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے بعد میں گندم کی ارزانی دیکھ کر دوبارہ پورا صاع ادا کرنے کا حکم دیا۔ (سنن أبي داود، الزکوة، حدیث: 1622) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ اختلاف بیان کرنے کے بعد یہ تبصرہ کرتے ہیں۔ کہ ہر زمانے میں اگر قیمت کو بنیاد بنا کر زکواۃ الفطر کی ادایئگی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تو اس کی مقدار کبھی منظبط نہیں رہ سکے گی۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ (قیمتوں کے اُتارچڑھائو کی وجہ سے) کسی وقت خود گندم کے بہت سے صاع مقرر کرنے پڑیں۔ (فتح الباري، الزکوة، باب صاع من زبیب) اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ اگر کشمش اور کھجور کی قیمت کو بنیاد بنایئں تو واقعی گندم اب منوں کے حساب سے دینی پڑے گی۔ اس لئے قیمتوں سے قطع نظر ہر علاقے کی بنیادی غذائی جنس سے ایک صاع زکواۃ الفطر کا طریقہ ہی قابل عمل ہے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے دور کے مختلف بنیادی اجناس کے حوالے سے مقرر فرمایا آپ نے جن اشیاء کا نام لیا وہ سو فیصد ہم قیمت نہ تھیں۔ لیکن آپ نے قیمتوں کے فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے رائج چیز کا نام لے کر ہر ایک میں صاع کی مقدار متعین فرمائی۔ دوسرے لفظوں میں رسالت مآب ﷺنے بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں کو بنیاد بنانے کی بجائے مقدارکو بنیاد بنایا اور تمام اجناس میں یکساں مقدار مقرر فرمائی۔ امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں رسول اللہ ﷺکی طرف منسوب روایات جمع کردی ہیں۔ جو آدھے صاع کا نقطہ نظر رکھنے والے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور ان کی پوری سندیں بیان کردی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب روایتیں ضعیف ہیں۔ اور آخری روایت میں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قیمتوں کے حوالے سے گندم کی مقدار میں تبدیلی کا بھی ذکرآگیا ہے۔ امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے۔ (المستدرك، الزکوة، حدیث: 1464) اس کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ مثلا امام حاکم سہل بن ابی حشمہ ہی سے روایت کرتے ہیں۔ کہ حضرت عمر نے بھی ان کو کھجور کے پھل کا تخمینہ لگانے کےلئے بھیجا اور فرمایا جب تم کسی اراضی میں پہنچو تو تخمینہ لگائو اور جتنی وہ کھا لیں اتنی مقدارچھوڑ دو۔ امام حاکم نے اس شواہد کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔ (المستدرك، الزکوة، حدیث: 1465) مروان بن حکم نے بھی ان کو بھیجا تھا۔ یہ کاشت کاروں کےلئے اسلام کی رحمت وشفقت کا بہترین مظاہرہ ہے۔ کہ تخمینے کے بعد پیداوار تیار حالت میں گھر لے جانے سے جو پہلے کمی آسکتی ہے۔ چاہے لوگوں کے کھانے سے ہی آئے۔ اور اس کو تخمینے سے نکال کر زکواۃ دی جائے۔ آجکل کھیتیاں مختلف آفات سماوی سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ یا ان کی پیداور بہت کم ہوجاتی ہے۔ بیماریاں بکثرت فصلوں اور باغوں پر حملہ آوارہوتی ہیں۔ لہذا کسان اپنی فصل کو ان بیماریوں سے بچانے کےلئے (بہت زیادہ اخراجات کا بار اُٹھاتا ہے۔ نتیجتاً وہ اکثر مقروض ہوجاتا ہے۔ اور بعض اوقات فصل کی تباہی اس پیمانے پر ہوتی ہے کہ اس کے بنیادی اخراجات اس کے ذمے بطور قرض واجب ہوجاتے ہیں۔ غالباً اسی لئے محدث العصر حافظ عبد للہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے تمام اخراجات نکال کر بقیہ مال کی زکواۃ دینے کا فتویٰ دیا ہے۔ (فتاویٰ اہلحدیث، حافظ محمد عبد اللہ روپڑی، جلد دوم باب زکوۃ) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور میں اس بات پر کوئی اختلاف مروی نہیں کہ اگر صاحب مال پر کوئی قرض ہے۔ تو اسے نکال کر باقی مال پرزکواۃ ہوگی۔ بعد کے دور میں ربعیہ۔ حماد بن ابی سلیمان۔ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نئے قول کے مطابق یہ رائے دی کہ قرض ہونے یا نہ ہونے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ ساری موجودہ پیداوار پر زکواۃ ہوگی۔ لیکن اس دور کی بھی اکثریت مثلا عطا۔ سلیمان بن یسار۔ میمون بن مہران۔ حسن نخعی لیث ثوری اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ یہ ہے۔ کہ اموال ظاہرہ ہون یا باطنہ قرض نکال کر باقی مالہ اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکواۃ دینی ہوگی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ابوثور اور فقہائے عراق رحمۃ اللہ علیہ اموال باطنہ میں قرض نکال کر باقی مال کی زکواۃ کے قائل ہیں لیکن اموال ظاہر میں نہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اموال ظاہرہ خصوصا کھیتی پر جو بھی خرچ ہوتا تھا اس کا تعلق پانی سے تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے خر چ کا اعتبار کرتے ہوئے عشر کی مقدار آدھی کردی۔ اب رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ جوں کا توں قائم رہے گا۔ (ابن قدامة، المغني، کتاب الزکوة، مسئلة الدین یمنع زکوة الأموال الباطنة بشرطه) خلفائے راشدین اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں ایسے کسی اختلاف کا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ اس پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ زکواۃ کی ادایئگی قرض کی مالیت علیحدہ کرنے کے بعد باقی مال پر ہوگی۔ (المغني، باب زکوة الدین والصدقة) اس سلسلے میں ابن قدامہ نے تو اصحاب مالک کے حوالے سے خود رسول اللہ ﷺ کایہ فرمان نقل کیا ہے۔ کہ (إذا كان لرجلٍ ألف درهم و عليه ألف درهم فلا زكوةَ عليه) جب کسی آدمی کے پاس ہزار درہم ہوں اور اس پرہزار درہم ہی قرض ہو تو اس پر زکواۃ نہیں۔ انہوں نے اس کو نص قرار دیا ہے۔ لیکن انھوں نے اس حدیث کی باقاعدہ سند نقل نہیں کی۔ البتہ امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ترین سند سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےحوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہﷺ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے۔ یہ تمہارا زکواۃ کا مہینہ ہے۔ تم میں سے جس پر کوئی قرض ہے۔ وہ ادا کردے تاکہ تمہارے مال خالص (قرض سے پاک) ہو جایئں اور ان سے زکواۃ ادا کرو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی سند سے یہ روایت رسول اللہ ﷺکے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، تک اپنی صحیح میں بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، مع فتح الباري، الاعتصام بالسنة باب ما ذکر النبي ﷺ وحض علی اتفاق أھل العلم نیز السنن الکبریٰ للبهیقي، الزکوة، باب الدین مع الصدقة) یہ خلیفہ راشید حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔ جو برسر منبر رسول اللہ ﷺ دیا گیا۔ اور کسی ایک صحابی نے بھی ان سے اختلاف نہ کیا۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اس کو بجا طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق رائے قرار دیتے ہیں۔ یہ ہر طرح کے قرض کو نکال کر باقی خالص مال سے زکواۃ کے وجوب پر قطعی دلیل ہے۔ بالخصوص اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اور اپنے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کی سنت کو لازم قرار دیا ہے۔ بعد کے عہد کے فقہاء اور علماء کے فتاویٰ اگر اس سے مختلف ہوں تو وہ قابل التفات نہیں رہتے۔ جبکہ ان کی اکثریت بھی اس کی قائل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں اگر کوئی اختلاف پایا جاتا ہے۔ تو محض یہ کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ کوئی انسان اگرقرض لے کر اہل وعیال پر خرچ کرے اور کھیتی پر بھی توسارا قرض نکال کر باقی مال پر زکواہ ہوگی۔ جبکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہاد یہ ہے کہ زکواۃ سے پہلے صرف اتنا قرض نکالا جائے گا۔ جو اس نے کھیتی پر صرف کیا ہے۔ (المغني، الدین یمنع زکوة الأموال) یہ دونوں اس پر متفق ہیں۔ کہ جو قرض کھیتی پرصرف ہو وہ زکواۃ سے مستثنیٰ ہوگا۔ کسی اور صحابی سے بھی اس سلسلے میں کوئی اختلاف منقول نہیں۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ر سول اللہ ﷺ سے براہ راست دین حاصل کیا اور احکام شریعت کے عموم سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے اجتہاد کے مقابلے میں کسی دوسرے کے اجتہاد کی کوئی حیثیت نہیں خصوصا ایسے اجتہاد کی جس سے کھیتی باڑی کرنے والے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض علماء نے قرض کی چھوٹ کے حوالے سے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ زکواۃ لی ہی اغنیاء سے جاتی ہے۔ اور پھر فقراء کو دیا جاتی ہے۔ تو ایک ایسا آدمی جو قرض کے بوجھ تلے دبہ ہو صرف اسی بنیاد پر کہ اس کی پیداوار ہوئی ہے چاہے وہ اس کے قرض سے کم ہو اس سے زکواۃ لے لی جائے۔ مصلحت پر زکواۃ کو الٹ دینے کے مترادف ہے۔ (مفصل بحث المغنی لابن قدامہ باب زکواۃ الدین والصدقۃ میں دیکھی جاسکتی ہے۔)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لسوء حفظ النعمان بن راشد. والشطر الأول منه قد توبع عليه؛ ولذلك أوردته في الكتاب الآخر (1434) ) . إسناده: حدثنا مسدد وسليمان بن داود العتكي قالا: ثنا حماد بن زيد عن النعمان بن راشد عن الزهري- قال مسدد:- عن ثعلبة بن عبد الله بن أبي صُعيْر عن أبيه- وقال سليمان بن داود: عبد الله بن ثعلبة أو ثعلبة بن عبد الله بن أبي صعير عن أبيه- قال...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لأن النعمان هذا سيئ الحفظ، وقد توبع على الشطر الأول من الحديث؛ ولذلك أوردته في الكتاب الآخر (1434) ، وفي الصحيحة أيضاً (1177) ، وهو مخرج هناك.
نماز اورز کو ۃ دین کے ایسے رکن ہیں جن کا ہر دور اور ہر مذہب میں آسانی تعلیمات کے پیروکاروں کوحکم دیا گیا ہے۔ گویا یہ دونوں فریقے ایسے ہیں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ہیں اور دین اسلام نے بھی زکوۃ کی اس اہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا اور اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا۔ قرآن مجید میں نماز کی اقامت اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم عموما ساتھ ساتھ ہے۔ دو درجن سے زائد مقامات پر قرآن کریم نے(اقيمو الصلاة) کے ساتھ (واتوا الزكوة) کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید کے اس اسلوب بیان سے واضح ہے کہ دین میں جتنی اہمیت نماز کی ہے اتنی ہی زکوة کی ہے۔ ان دونوں میں بایں طور تفریق کرنے والا کہ ایک پر عمل کرے اور دوسرے پرنہ کرے’ سرے سے ان کا عامل نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح زکوة بھی شریعت میں اتنا ہی مقام رکھتی ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار اعراض اور فرار مسلمانی کے زمرے سے نکال دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ زکوة کی فرضیت مشہور قول کے مطابق ہجرت کےدوسرے سال ہوئی۔
لغوی اعتبار سے زکوة کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک وصاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکوة میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکوة کی ادا گی سےبقیہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور عدم ادا ئیگی سے اس میں غرباء و مساکین کاحق شامل رہتا ہے جس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے۔ جیسے کی جائز اور حلال چیز میں ناجائز اور حرام چیز مل جائے تو وہ جائز اور حلال چیز کو بھی حرام کر دیتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ نے زکوۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کر دے۔“ (سنن ابی داود، الزكوة، باب في حقوق المال حديث: ۱۲۹۴) قرآن مجید میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے:) خذمن اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها((التوبة :103)اے پیغمبر!) ان کے بالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اوران کا تزکیہ کردیں‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زکوة وصدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ طہارت کس چیز سے؟ گناہوں سے اور اخلاق رزیلہ سے۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خودغرض ’ظالم متکبر’بخیل بد دیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکوۃ مال کی شدید محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم و کرم ہمدردی واخوت ایثار و قربانی اورفضل واحسان کے جذبات پیدا کرتی ہے اور انسان جب اللہ کے حکم پر زکوۃ ادا کرتا ہے تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (ان الحسنات يذهبن السيئات)( هود: ۱۳) بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔‘‘
زکوة کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکوة ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کی واقع ہوتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالی فرما دیتا ہے ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسانہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہو جاتی ہے۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا’’صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ۔‘‘(صحيح مسلم،البر،باب استحباب العفووالتواضع،حديث:2588)
مذکورہ گزارشات کے بعد زکوۃ وصدقات کے کچھ فضائل و برکات بیان کیے جاتے ہیں تا کہ قاری مسئلہ کی حقیقت کو کما حقہ سمجھ سکے حدیث قدسی ہے’’ اللہ تعالی فرماتا ہے (اے ابن آدم!) تو (میرےضرورت مند بندوں پر) خرچ کر میں (خزانہ غیب سے)تجھ کو دیتا رہوں گا۔“ (صحيح البخارى ، التوحيد،باب:35،حديث:7496)
اس کی بابت حضرت اسماءؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا( اللہ کی راہ میں کشادہ دلی سے) خرچ کرتی رہو اور گن گن کر مت رکھو ،اگر تم گن گن کر اور حساب کر کے خرچ کرو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر بند کر کے مت رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہی معاملہ کرے گا۔ اس لیے جتنی توفیق ہوفراخ دلی سےخرچ کرتی رہو۔‘‘(صحيح البخارى ، الهبة، باب: 5، حديث: 2591، والزكوة، باب: 22، حديث: 1434، وصحيح مسلم، الزكوة، باب الحث على الانفاق ، حديث: 1029)
صدقہ کی بابت نبیﷺ سے پوچھا گیا’ کون ساصدقہ اجر میں زیادہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’زیاده اجر وثواب والاصدقہ وہ ہے جو تندرستی کی حالت میں اس وقت کیا جائے جب انسان کے اندر دولت کی چاہت اور اسے اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو اور اسے خرچ کی صورت میں محتاجی کا خطرہ اور روک رکھنے کی صورت میں دولت مندی کی امید ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم سوچنے اور ٹالتے رہو یہاں تک کہ تمہارا آخری وقت آجائے اور اس وقت تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا مال فلاں کو اور اتنا فلاں کو( اللہ کےلیے) دے دیا جائے‘درآں حالیکہ اس وقت وہ مال ( تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں (وارثوں) کا ہو چکا ہو ۔(صحيح مسلم، الزكوة، باب بيان ان افضل الصدقة صدقة الصحيح الصحيح ، حديث: 1032)
ان فضائل و برکات کی پوری اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرا پہلو یعنی صدقات و خیرات سے پہلو تہی اور اعراض کی سخت وعید اور اس پر عذاب شدید کی تنبیہ سامنے نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اس نے اس کی زکوة نہ دی تو وہ دولت قیامت کے دن اس کے لیے گنجے سانپ کی شکل میں بنادی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے (یہ دونوں نشانیاں خت زہریلے سانپ کی ہیں) وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا پھر وہ سانپ اپنی دونوں باچھوں سے اس کو پکڑ کر کھینچے گا اور کہے گا: میں تیرا بال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد نبیﷺنے سورة آل عمران کی آیت (۱۸۰) تلاوت فرمائی وہ لوگ جو اللہ کے فضل وکرم سے حاصل کردہ مال میں بخل کرتے ہیں ( زکوۃ ادانہیں کرتے) یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے (نہیں) بلکہ یہ ان کے حق میں ( انجام کے لحاظ سے) بدتر ہے۔ یہ مال جس میں وہ بخل کرتے ہیں( اور اس کی زکوہ بھی نہیں نکالتے )قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق بنا کے ڈال دیا جائے گا۔‘‘(صحيح البخارى ، الزكوة، باب اثم مانع الزكوة حديث:1403)
حضرت ابوذرسے روایت ہے’ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ یا (فرمایا)قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جیسے بھی آپ نے حلف اٹھایا (حلف کے الفاظ صحابی کوصحیح یاد نہیں رہے۔) جس آدمی کے پاس بھی کچھ اونٹ گائیں یا بکریاں ہوں وہ ان کا حق (زکوۃ) ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن ان جانوروں سمیت لایا جائے گا یہ جانور دنیا کے مقابلے میں زیادہ قد آور اور زیادہ موٹے تاز ہ ہوں گے وہ اسے اپنے پیروں سے روند یں گے اور اپنے سینگوں سے ٹکریں مارتے ہوئے گزریں گے جب آخرتک سب گزر جائیں گے تو پہلے والے پھر اسی طرح اس پر لوٹائے جائیں گے حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ یہی معاملہ جاری رہے گا ۔“((صحيح البخارى، الزكوة، باب زكوة البقر، حديث:1460)
قرآن کریم کی یہ آیت بھی انہی لوگوں کی وعید میں نازل ہوئی ہے جو اپنے سونے چاندی اوراپنے مال ودولت میں سےزکوۃ نہیں نکالتے۔( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ ) (التوبۃ:9/34۔35)’’اورجولوگ سوناچاندی بطورخزانہ جمع کرتےہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے توانہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیجیے۔ جس دن کہ ان کی دولت کودوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا‘پھراس سےان کے ماتھے ‘ان کےپہلو اوران کی پیٹھیں داغی جائیں گی(اورکہاجائےگا)یہ ہے تمہاری وہ دولت جسےتم نے جوڑجوڑ کر رکھا تھا‘پس تم اپنی اس دولت اندوزی کاآج مزاچکھو۔‘‘لیکن اس وعیدسےوہ لوگ خارج ہیں جواپنے مال میں سےزکوۃ نکالتے اورصدقہ خیرات کرتےرہتےہیں۔
اس اخروی عقوبت کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوۃ کی ادائیگی سے اعراض کرتی ہے امساک باراں اور قحط سالی جیسے ابتلاء سے دوچار کر دیتا ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے: "جو قوم زکوة سے انکار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔“ ( (الطبرانى فى الأوسط، حديث: 4577-6788، وصحيح الترغيب للألبانى:1/467)
ایک دوسری روایت میں ہے جو لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے وہ باران رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر بھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔“ (سنن ابن ماجه ، باب العقوبات،حديث:4019، وحسنه الألبانى فى الصحيحة حديث:106-1/216-217)
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کا مطالبہ صرف ز کوٰۃ ہی پرختم نہیں ہو جاتا بلکہ صاحب استطاعت کو ہر ضرورت کے موقع پر الله کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ۔ قرآن مجید نے اس لیے متعدد مقامات پر زکوۃ‘‘ کی بجائے انفاق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو عام ہے اور زکوۃ اور دیگر صدقات دونوں کو محیط ہے۔(متقين)کی صفات میں بتایاگیا ہے (وممارزقنهم ينفقون) (البقرة:3)’’اوروہ ہمارےدیےہوئے مال میں سے انفاق (خرچ)کرتےہیں۔ ’’نیزفرمایا(يايها الذين امنوا انفقوامن طيبت ماكسبتم) (البقرة :467)’’اےایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی سے انفاق (خرچ )کرو۔‘‘
زکوۃ وصدقات دیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے اولین مستحق آدمی کے درجہ بدرجہ اپنے قرابت دار ہیں ۔ قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی جس میں غریب و بے سہارا افراد کی اعانت و دست گیری شامل ہے حقوق العباد میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سب سے پہلے آدمی کے والدین ہیں اور دوسرے نمبر پر اس کے دیگر قریب ترین رشتہ دار۔ اگر انسان کے پاس اہل خانہ اور والدین کی کفالت کے بعد کچھ مال بچ رہے تو اسے درجہ بدرجہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اسے شریعت میں صلہ رحمی کہتے ہیں ۔ اس سے دوگنا اجر ملے گا ایک صلہ رحمی کا اور دوسراصدقے کا۔
زکوة اس مال میں سے نکالی جائے جس میں انسان کو ملکیت تامہ حاصل ہو ملکیت تامہ کا مطلب ہے کہ وہ مال اس کے دست تصرف میں ہو۔ اس کو جس طرح چاہے خرچ کرے اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہ ہو اور اس مال کے تجارتی فوائد میں وہ بلا شرکت غیرے ما لک ہو۔
مشترکہ (لمٹیڈ) کمپنیوں میں سے سب کے مجموعی مالوں میں سے بھی سب کی طرف سے زکوۃ نکالی جانی چاہے۔ (ملخص از کتاب ’’زکوٰۃ وعشر‘‘تالیف حافظ صلاح الدین یوسف، مطبوعہ دارالسلام)
جناب عبداللہ بن ثعلبہ یا ثعلبہ بن عبداللہ ابی صعیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر دو افراد چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام، مرد اور عورت کی طرف سے ایک صاع گندم ہے۔ چنانچہ جو تم میں سے غنی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پاک کر دے گا اور جو فقیر ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ عطا فرمائے گا جو اس نے دیا۔“ سلیمان نے اپنی روایت میں ”غنی اور فقیر“ کا اضافہ کیا ہے۔ (یوں کہا: آزاد غلام، مرد عورت ”غنی اور فقیر“ کی طرف سے)۔
حدیث حاشیہ:
زکوۃ المال کی طرح رسول اللہ ﷺ نے زکوۃ الفطر بنیادی غذائی اجناس سے ایک صاع کے برابر ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضاحت سے بیان فرماتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺکے عہد میں آپﷺ کے حکم پر ہم کھانے کی اشیاء میں سے ایک صاع زکواۃ الفطر ادا کرتے تھے۔ اور ہمارے کھانے کی اجناس جو کشمش۔ کھجور۔ اور پنیر تھیں۔ (صحیح البخاري، صدقة الفطر، باب الصدقة قبل العید، حدیث: 1510) یعنی اس دور میں گندم عام نہ تھی۔ بعد میں جب گندم عام ہوگئی۔ تو زکوۃ الفطر اس میں ادا کی جانے لگی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے۔ کہ لوگوں نے قیمت کو بنیاد بنا کر گندم سے ایک صاع یا چار مد کی بجائے دو مد یا نصف صاع ادا کرنا شروع کر دیا۔ (صحیح البخاري، صدقة الفطر۔ باب الصدقة الفطر صاعا من تمر، حدیث: 1507) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہی وضاحت فرماتے ہیں۔ کہ گندم میں آدھا صاع دینے کا طریقہ لوگوں میں اس وقت شروع ہوا جب (فلما جاء معاوية وجاءت السمراء......) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور سمراء یعنی شامی گندم آئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے میں اس گندم کا ایک مد (دوسری غذائی اجناس کے) دو مدوں کےبرابر ہے۔ (صحیح البخاري، صدقة الفطر، باب صاع من زبیب، حدیث: 1508) ابو دائود میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (حدیث نمبر 1614) میں یہ کہا گیا ہے کہ گندم کے آدھے صاع کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقی اشیاء کے نصف صاع کے برابرقرار دیا تھا۔ لیکن یہ روایت بعض علمائے جرح وتعدیل کے نزدیک تو سرے سے ضعیف ہے۔ (ضعیف أبي داود، للألباني، الزکوة، باب کم یؤدی في صدقة الفطر) ورنہ اس پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے راوی عبد العزیز بن ابی رواد کا وہم قرار دیا ہے۔ (فتح الباري، الزکاة، باب الصدقة الفطر صاعا من تمر) نصف صاع کی رائے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےعلاوہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔ لیکن اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع نہیں کیونکہ بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رائے کے مخالف ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جس طرح یہ مروی ہے کہ آپ نے قیمت کا لحاظ کرتے ہوئے ایک وقت میں نصف صا ع کی اجازت دی۔ وہاں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے بعد میں گندم کی ارزانی دیکھ کر دوبارہ پورا صاع ادا کرنے کا حکم دیا۔ (سنن أبي داود، الزکوة، حدیث: 1622) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ اختلاف بیان کرنے کے بعد یہ تبصرہ کرتے ہیں۔ کہ ہر زمانے میں اگر قیمت کو بنیاد بنا کر زکواۃ الفطر کی ادایئگی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تو اس کی مقدار کبھی منظبط نہیں رہ سکے گی۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ (قیمتوں کے اُتارچڑھائو کی وجہ سے) کسی وقت خود گندم کے بہت سے صاع مقرر کرنے پڑیں۔ (فتح الباري، الزکوة، باب صاع من زبیب) اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ اگر کشمش اور کھجور کی قیمت کو بنیاد بنایئں تو واقعی گندم اب منوں کے حساب سے دینی پڑے گی۔ اس لئے قیمتوں سے قطع نظر ہر علاقے کی بنیادی غذائی جنس سے ایک صاع زکواۃ الفطر کا طریقہ ہی قابل عمل ہے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے دور کے مختلف بنیادی اجناس کے حوالے سے مقرر فرمایا آپ نے جن اشیاء کا نام لیا وہ سو فیصد ہم قیمت نہ تھیں۔ لیکن آپ نے قیمتوں کے فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے رائج چیز کا نام لے کر ہر ایک میں صاع کی مقدار متعین فرمائی۔ دوسرے لفظوں میں رسالت مآب ﷺنے بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں کو بنیاد بنانے کی بجائے مقدارکو بنیاد بنایا اور تمام اجناس میں یکساں مقدار مقرر فرمائی۔ امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں رسول اللہ ﷺکی طرف منسوب روایات جمع کردی ہیں۔ جو آدھے صاع کا نقطہ نظر رکھنے والے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور ان کی پوری سندیں بیان کردی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب روایتیں ضعیف ہیں۔ اور آخری روایت میں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قیمتوں کے حوالے سے گندم کی مقدار میں تبدیلی کا بھی ذکرآگیا ہے۔ امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے۔ (المستدرك، الزکوة، حدیث: 1464) اس کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ مثلا امام حاکم سہل بن ابی حشمہ ہی سے روایت کرتے ہیں۔ کہ حضرت عمر نے بھی ان کو کھجور کے پھل کا تخمینہ لگانے کےلئے بھیجا اور فرمایا جب تم کسی اراضی میں پہنچو تو تخمینہ لگائو اور جتنی وہ کھا لیں اتنی مقدارچھوڑ دو۔ امام حاکم نے اس شواہد کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔ (المستدرك، الزکوة، حدیث: 1465) مروان بن حکم نے بھی ان کو بھیجا تھا۔ یہ کاشت کاروں کےلئے اسلام کی رحمت وشفقت کا بہترین مظاہرہ ہے۔ کہ تخمینے کے بعد پیداوار تیار حالت میں گھر لے جانے سے جو پہلے کمی آسکتی ہے۔ چاہے لوگوں کے کھانے سے ہی آئے۔ اور اس کو تخمینے سے نکال کر زکواۃ دی جائے۔ آجکل کھیتیاں مختلف آفات سماوی سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ یا ان کی پیداور بہت کم ہوجاتی ہے۔ بیماریاں بکثرت فصلوں اور باغوں پر حملہ آوارہوتی ہیں۔ لہذا کسان اپنی فصل کو ان بیماریوں سے بچانے کےلئے (بہت زیادہ اخراجات کا بار اُٹھاتا ہے۔ نتیجتاً وہ اکثر مقروض ہوجاتا ہے۔ اور بعض اوقات فصل کی تباہی اس پیمانے پر ہوتی ہے کہ اس کے بنیادی اخراجات اس کے ذمے بطور قرض واجب ہوجاتے ہیں۔ غالباً اسی لئے محدث العصر حافظ عبد للہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے تمام اخراجات نکال کر بقیہ مال کی زکواۃ دینے کا فتویٰ دیا ہے۔ (فتاویٰ اہلحدیث، حافظ محمد عبد اللہ روپڑی، جلد دوم باب زکوۃ) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور میں اس بات پر کوئی اختلاف مروی نہیں کہ اگر صاحب مال پر کوئی قرض ہے۔ تو اسے نکال کر باقی مال پرزکواۃ ہوگی۔ بعد کے دور میں ربعیہ۔ حماد بن ابی سلیمان۔ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نئے قول کے مطابق یہ رائے دی کہ قرض ہونے یا نہ ہونے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ ساری موجودہ پیداوار پر زکواۃ ہوگی۔ لیکن اس دور کی بھی اکثریت مثلا عطا۔ سلیمان بن یسار۔ میمون بن مہران۔ حسن نخعی لیث ثوری اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ یہ ہے۔ کہ اموال ظاہرہ ہون یا باطنہ قرض نکال کر باقی مالہ اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکواۃ دینی ہوگی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ابوثور اور فقہائے عراق رحمۃ اللہ علیہ اموال باطنہ میں قرض نکال کر باقی مال کی زکواۃ کے قائل ہیں لیکن اموال ظاہر میں نہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اموال ظاہرہ خصوصا کھیتی پر جو بھی خرچ ہوتا تھا اس کا تعلق پانی سے تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے خر چ کا اعتبار کرتے ہوئے عشر کی مقدار آدھی کردی۔ اب رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ جوں کا توں قائم رہے گا۔ (ابن قدامة، المغني، کتاب الزکوة، مسئلة الدین یمنع زکوة الأموال الباطنة بشرطه) خلفائے راشدین اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں ایسے کسی اختلاف کا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ اس پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ زکواۃ کی ادایئگی قرض کی مالیت علیحدہ کرنے کے بعد باقی مال پر ہوگی۔ (المغني، باب زکوة الدین والصدقة) اس سلسلے میں ابن قدامہ نے تو اصحاب مالک کے حوالے سے خود رسول اللہ ﷺ کایہ فرمان نقل کیا ہے۔ کہ (إذا كان لرجلٍ ألف درهم و عليه ألف درهم فلا زكوةَ عليه) جب کسی آدمی کے پاس ہزار درہم ہوں اور اس پرہزار درہم ہی قرض ہو تو اس پر زکواۃ نہیں۔ انہوں نے اس کو نص قرار دیا ہے۔ لیکن انھوں نے اس حدیث کی باقاعدہ سند نقل نہیں کی۔ البتہ امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ترین سند سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےحوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہﷺ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے۔ یہ تمہارا زکواۃ کا مہینہ ہے۔ تم میں سے جس پر کوئی قرض ہے۔ وہ ادا کردے تاکہ تمہارے مال خالص (قرض سے پاک) ہو جایئں اور ان سے زکواۃ ادا کرو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی سند سے یہ روایت رسول اللہ ﷺکے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، تک اپنی صحیح میں بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، مع فتح الباري، الاعتصام بالسنة باب ما ذکر النبي ﷺ وحض علی اتفاق أھل العلم نیز السنن الکبریٰ للبهیقي، الزکوة، باب الدین مع الصدقة) یہ خلیفہ راشید حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔ جو برسر منبر رسول اللہ ﷺ دیا گیا۔ اور کسی ایک صحابی نے بھی ان سے اختلاف نہ کیا۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اس کو بجا طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق رائے قرار دیتے ہیں۔ یہ ہر طرح کے قرض کو نکال کر باقی خالص مال سے زکواۃ کے وجوب پر قطعی دلیل ہے۔ بالخصوص اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اور اپنے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کی سنت کو لازم قرار دیا ہے۔ بعد کے عہد کے فقہاء اور علماء کے فتاویٰ اگر اس سے مختلف ہوں تو وہ قابل التفات نہیں رہتے۔ جبکہ ان کی اکثریت بھی اس کی قائل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں اگر کوئی اختلاف پایا جاتا ہے۔ تو محض یہ کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ کوئی انسان اگرقرض لے کر اہل وعیال پر خرچ کرے اور کھیتی پر بھی توسارا قرض نکال کر باقی مال پر زکواہ ہوگی۔ جبکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہاد یہ ہے کہ زکواۃ سے پہلے صرف اتنا قرض نکالا جائے گا۔ جو اس نے کھیتی پر صرف کیا ہے۔ (المغني، الدین یمنع زکوة الأموال) یہ دونوں اس پر متفق ہیں۔ کہ جو قرض کھیتی پرصرف ہو وہ زکواۃ سے مستثنیٰ ہوگا۔ کسی اور صحابی سے بھی اس سلسلے میں کوئی اختلاف منقول نہیں۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ر سول اللہ ﷺ سے براہ راست دین حاصل کیا اور احکام شریعت کے عموم سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے اجتہاد کے مقابلے میں کسی دوسرے کے اجتہاد کی کوئی حیثیت نہیں خصوصا ایسے اجتہاد کی جس سے کھیتی باڑی کرنے والے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض علماء نے قرض کی چھوٹ کے حوالے سے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ زکواۃ لی ہی اغنیاء سے جاتی ہے۔ اور پھر فقراء کو دیا جاتی ہے۔ تو ایک ایسا آدمی جو قرض کے بوجھ تلے دبہ ہو صرف اسی بنیاد پر کہ اس کی پیداوار ہوئی ہے چاہے وہ اس کے قرض سے کم ہو اس سے زکواۃ لے لی جائے۔ مصلحت پر زکواۃ کو الٹ دینے کے مترادف ہے۔ (مفصل بحث المغنی لابن قدامہ باب زکواۃ الدین والصدقۃ میں دیکھی جاسکتی ہے۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن ابوصعیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گیہوں کا ایک صاع ہر دو آدمیوں پر لازم ہے (ہر ایک کی طرف سے آدھا صاع) چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، رہا تم میں جو غنی ہے، اللہ اسے پاک کر دے گا، اور جو فقیر ہے اللہ اسے اس سے زیادہ لوٹا دے گا، جتنا اس نے دیا ہے۔“ سلیمان نے اپنی روایت میں «غنيٍ أو فقيرٍ» کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Tha'labah ibn Su'ayr: The Apostle of Allah (ﷺ) said: One sa' of wheat is to be taken from every two, young or old, freeman or slave, male or female. Those of you who are rich will be purified by Allah, and those of you who are poor will have more than they gave returned by Him to them. Sulayman added in his version: "rich or poor".