Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: How Should One Wipe)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
162.
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر دین رائے اور قیاس پر مبنی ہوتا تو موزوں کا نیچے والا حصہ اوپر والے کی بہ نسبت مسح کا زیادہ مستحق ہوتا، مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ اپنے موزوں کے اوپر ہی مسح کیا کرتے تھے۔
تشریح:
فوائد ومسائل: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ صحیح ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نےاسے صحیح کہا ہےاسی طرح اگلی دونوں روایتں (163، 164) بھی شیخ البانی کےنزدیک صحیح ہیں-
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال الحافظ) . إسناده: حدثنا محمد بن العلاء: ثنا حفص بن غِيَاث عن الأعمش عن أبي
إسحاق عن عبد خير عن علي. وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير عبد خير؛ وهو ثقة، وقد مر.
والحديث أخرجه البيهقي من طريق المصنف. وكذلك رواه ابن حزم (2/111) . ثمّ أخرجه البيهقي، والدارقطني (73) من طرق أخرى عن حفص... به. وقال الحافظ في التلخيص (2/392) - بعد أن عزاه للمصنف-: وإسناده صحيح . وقال في البلوغ : إسناده حسن ! والصواب الأ ول.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر دین رائے اور قیاس پر مبنی ہوتا تو موزوں کا نیچے والا حصہ اوپر والے کی بہ نسبت مسح کا زیادہ مستحق ہوتا، مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ اپنے موزوں کے اوپر ہی مسح کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ صحیح ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نےاسے صحیح کہا ہےاسی طرح اگلی دونوں روایتں (163، 164) بھی شیخ البانی کےنزدیک صحیح ہیں-
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں ”اگر دین (کا معاملہ) رائے اور قیاس پر ہوتا، تو موزے کے نچلے حصے پر مسح کرنا اوپری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا، حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے“۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn AbuTalib (RA): If the religion were based on opinion, it would be more important to wipe the under part of the shoe than the upper but I have seen the Messenger of Allah (ﷺ) wiping over the upper part of his shoes.