Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Performing The Ifrad Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1790.
سیدنا ابن عباس ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے ہم نے اس کا فائدہ حاصل کیا ہے، سو جس کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ حلال ہو جائے، پوری طرح حلال ہونا۔ اور قیامت تک کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں یہ روایت منکر ہے۔ یہ صرف ابن عباس ؓ کا قول ہے۔
تشریح:
(1) امام ابن القیم فرماتے ہیں: امام ابو داؤد کا مذکورہ بالا حدیث کو منکر کہنا صحیح نہیں۔ کیونکہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یہ جرح در اصل اگلی حدیث (1791 پر ہے۔ (عون المعبود) (2) چونکہ قبل از اسلام لوگ ایام حج میں عمرہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ممانعت کرتے ہوئے شریعت اسلام کی بات تاکید کے ساتھ نافذ فرمائی۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه مسلم. وأعلهُ المصنف رحمه الله بما لا يقدح! ولذا صححه المنذري وابن القيم) .إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة أن محمد بن جعفر حدثهم عن شعبةعن الحكم عن مجاهد عن ابن عباس.قال أبو داود: هذا منكر؛ وإنما هو قول ابن عباس !
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه مسلم كما يأتي.وأعله المصنف بالوقف كما رأيت! ولا وجه له البتة، فقد رواه جمع آخر من الثقات عن شعبة... به مرفوعاً، فممن الوهم، وما الدليل عليه؟!ولذلك لم يقبل العلماء ذلك منه، فقال المنذري في مختصره : وفيما قاله أبو داود نظر، وذلك أنه قد رواه الإمام أحمد ومحمد بن المثنى ومحمد بن بشار وعثمان بن أبي شيبة عن محمد بن جعفر عن شعبة...مرفوعاً. ورواه أيضاً يزيد بن هارون ومعاذ بن معاذ العنبري وأبو داود الطيالسي وعمرو بن مرزوق عن شعبة... مرفوعاً، وتقصير من قصر به من الرواة لا يؤثر فيما أثبته الحفاظ . وقال ابن القيم في التهذيب : وقوله: دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة لا ريب في أنه من كلام رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولم يقل أحد: إنه من قول ابن عباس. وكذلك قوله: هذه عمرة تمتعنا بها . وهذا لا يشك فيه من له أدنى خبرة بالحديث .
قلت: ولقد صدق رحمه الله.أما الجملة الأولى: دخلت العمرة... ؛ فلها طريق أخرى عن مجاهد،سأخرجها بعد حديث.ولها شاهد صحيح من حديث جابر الطويل، الآتي برقم (1663) .وله طريق أخرى: أخرجه الدارقطني (ص 282) من طريق أبي الزبير عن جابرعن سراقة بن مالك... مرفوعاً به. وقال: كلهم ثقات .وصححه النووي في المجموع ؛ وأبو الزبير مدلس.وقد رواه أحمد (4/175) من طريق طاوس والنزال بن يزيد بن سبرة عن سراقة... به.والطريق الأولى رجالها ثقات؛ لكن طاوس لم يسمع من سراقة.والأخرى موصولة، ولكن فيها داود بن يزيد- وهو الأوْدِي- ضعيف.وعنه: الطحاوي (1/379) .وأما الجملة الأخرى- وهي قوله: هذه عمرة تمتعنا بها -؛ فلها شواهدكثيرة؛ فإن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان قارناً، كما هو القول الصحيح المؤيد بأحاديث كثيرة،في بعضها التصريح بذلك، كحديث البراء الآتي قريباً، ومثله بعض أصحابه من الذين كانوا ساقوا الهدي فلم يَحِلّوا، وسائرهم أحَلوا؛ لأنهم ما ساقوا الهدي، فهوصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والصحابة جميعاً كانوا قد تمتعوا بالعمرة إلى الحج على التفصيل المذكور.ولذلك قال ابن عمر- كما يأتي (1584) -:تمتع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... وتمتع الناس معه...ولذلك فَهمْ جميعاً يشملهم قوله تعالى: (فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فمااستيسر من الهدي) . فقول البيهقي (5/18) : إنه أراد أصحابه الذين حَلُواواستمتعوا ! غير قوي؛ لما ذكرنا، وتجد تفصيله في زاد المعاد لابن القيم رحمه الله تعالى.ثم أن ابن القيم جزم بعد كلامه السابق بأن قول المصنف المذكر في إعلال الحديث؛ إنما محله بعد الحديث الآتي، أخطأ بعض النساخ، فنقله إلى هنا، وهوأمر محتمل، وسأنقل كلامه في ذلك قريباً، وأبين ما يَرِدُ عليه أيضاً.والحديث أخرجه مسلم (4/57) ، والنسائي (2/24) ، والدارمي (2/50) ،والبيهقي (5/18) ، وأحمد (1/236 و 341) من طريق أخرى عن شعبة... به.وعزاه العراقي في طرح التثريب (5/19) لـ الصحيحين ، وهو وهم.ورواه للترمذي عن يزيد بن أبي زياد عن مجاهد... به، وقال (932) : حديث حسن .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عباس ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے ہم نے اس کا فائدہ حاصل کیا ہے، سو جس کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ حلال ہو جائے، پوری طرح حلال ہونا۔ اور قیامت تک کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں یہ روایت منکر ہے۔ یہ صرف ابن عباس ؓ کا قول ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام ابن القیم فرماتے ہیں: امام ابو داؤد کا مذکورہ بالا حدیث کو منکر کہنا صحیح نہیں۔ کیونکہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یہ جرح در اصل اگلی حدیث (1791 پر ہے۔ (عون المعبود) (2) چونکہ قبل از اسلام لوگ ایام حج میں عمرہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ممانعت کرتے ہوئے شریعت اسلام کی بات تاکید کے ساتھ نافذ فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پوری طرح سے حلال ہو جائے، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ (مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم ﷺ کا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ابوداود کا یہ قول صحیح نہیں ہے، اس کو کئی راویوں نے مرفوعا روایت کیا ہے جن میں امام احمد بن حنبل بھی ہیں (منذری)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas (RA) reported the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying This is an ‘Umrah from which we have benefitted. Anyone who has brought sacrificial animal with him should take off ihram totally. ‘Umrah has been included in Hajj till the Day of Judgment. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said This is a munkar (uncommon) tradition. This is in fact the statement of Ibn ‘Abbas (RA) himself.