Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From (Drinking) Milk)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
196.
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک بار) دودھ نوش فرمایا، پھر پانی طلب کیا اور کلی کی اور فرمایا ”اس میں چکنائی ہوتی ہے۔“
تشریح:
اس قسم کے ماکولات ومشروبات سے جن میں چکنائی ہو‘ کلی کر لینا اولی وافضل ہے تاکہ نماز کے دوران میں منہ خوب صاف رہے۔ آنے والی حدیث میں اس کی رخصت کا بیان ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وكذا ابن حبان (1155) ، وأبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ، وقد رووه- إلا أبا عوانة- بإسناد المصنف) . إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا الليث عن عُقَيْل عن الزهري عن عبيد الله ابن عبد الله عن ابن عباس. وهذا إسناد صحيح على شرطهما. والحديث أخرجه الشيخان والنسائي والترمذي كلهم عن قتيبة... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وأخرجه الشيخان أيضا وأبو عوانة وابن ماجه والبيهقي من طرق أخرى عن الزهري... به نحوه.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک بار) دودھ نوش فرمایا، پھر پانی طلب کیا اور کلی کی اور فرمایا ”اس میں چکنائی ہوتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
اس قسم کے ماکولات ومشروبات سے جن میں چکنائی ہو‘ کلی کر لینا اولی وافضل ہے تاکہ نماز کے دوران میں منہ خوب صاف رہے۔ آنے والی حدیث میں اس کی رخصت کا بیان ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیا، پھر پانی منگا کر کلی کی اور فرمایا: ”اس میں چکنائی ہوتی ہے“ ۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس قسم کے ماکولات و مشروبات سے جن میں چکنائی ہو، کلی کر لینا اولیٰ و افضل ہے تاکہ نماز کے دوران میں منہ خوب صاف رہے، لیکن ایسا کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ آنے والی حدیث میں اس کی رخصت کا بیان ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas ibn Malik: The Messenger of Allah (ﷺ) drank some milk and he did not rinse his mouth nor did he perform ablution, and he offered the prayer.