Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Concession In This Regard)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
197.
سیدنا انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ( ایک بار ) رسول اللہ ﷺ نے دودھ پیا مگر ( اس کے بعد ) کلی کی نہ وضو کیا اور نماز پڑھ لی ۔ زید ( زید بن حباب ) کہتے ہیں کہ شعبہ نے مجھے اس شیخ ( مطیع بن راشد ) کی راہنمائی کی تھی ( کہ اس سے حدیث حاصل کروں ) ۔
تشریح:
دودھ پی کرکلی کرلینامستحب اورافضل ہے‘نہ بھی کرےتوجائزہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وكذا قال الحافظ، وقوّاه ابن شاهين) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة عن زيد بن الحُبَاب عن مُطيع بن راشد عن تَوْبة العنبري أنه سمع أنس بن مالك. قال زيد: دَئَتي شعبة على هذا الشيخ. قلت: يعني: مطيع بن راشد هذا. وقال الحافظ في تهذيب التهذيب : قلت: وقال أبو داود: أثنى عليه شعبة . قال في عون المعبود : فدلالة شعبة لزيد على مطيع بن راشد لأخذ الحديث منه؛ تدل على أن شعبة كان حسن الرأي في مطيع بن راشد؛ وإلا لم يدل على من كان مستور الحال أو ضعيفاً عنده. قال السيوطي: قال الشيخ ولي الدين: ومطيع بصري. قال الذهبي: إنه لا يعرف. لكن قال زيد بن الحباب: إن شعبة دله عليه؛ وشعبة لا يروي إلا عن ثقة؛ فلا يدل إلا على ئقة ، وهذا هو المقتضي لسكوت أبي داود عليه .انتهى . قلت: ويؤيد ذلك ما نقلناه آنفاً عن التهذيب من ئناء شعبة عليه. ولذلك سكت المنذري عليه في مختصره (رقم 185) . وقال الحافظ في الفتح (1/250) : إسناده حسن . والله سبحانه وتعالى أعلم. وأما سائر رواة الإسناد؛ فثقات مشهورون من رجال الشيخين. وقد قوّاه ابن شاهين؛ حيث قال الحافظ: وأغرب ابن شاهين فجعل حديث أنس ناسخالحديث ابن عباس (يعني: الذي في الباب قبله) ؛ ولم يذكر من قال فيه بالوجوب؛ حتى يحتاج إلى دعوى النسخ . قلت: ولولا أن ابن شاهين يرى أن الحديث قوي ثابت؛ لما ادعى أنه ناسخ؛ وهذا بَينٌ لا يخفى!
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ( ایک بار ) رسول اللہ ﷺ نے دودھ پیا مگر ( اس کے بعد ) کلی کی نہ وضو کیا اور نماز پڑھ لی ۔ زید ( زید بن حباب ) کہتے ہیں کہ شعبہ نے مجھے اس شیخ ( مطیع بن راشد ) کی راہنمائی کی تھی ( کہ اس سے حدیث حاصل کروں ) ۔
حدیث حاشیہ:
دودھ پی کرکلی کرلینامستحب اورافضل ہے‘نہ بھی کرےتوجائزہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دودھ پیا پھر نہ کلی کی اور نہ ( دوبارہ ) وضو کیا اور نماز پڑھی ۔
حدیث حاشیہ:
دودھ پی کر کلی بھی کی جا سکتی ہے جیسا کہ پچھلی حدیث ۱۹۶ میں بیان ہوا ہے لیکن اگر کلی نہ بھی کی جائے پھر بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) ibn Malik: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) drank some milk and he did not rinse his mouth nor did he perform ablution, and he offered the prayer.