Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Avoiding (The Splatter) Of Urine)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
20.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں کسی بہت بڑی بات میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے۔ رہا یہ شخص! تو یہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور یہ (دوسرا) تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی اسے دو حصوں میں چیرا اور ہر دو قبروں پر ایک ایک کو گاڑ دیا اور فرمایا: ’’امید ہے کہ ان کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔‘‘ هناد کے الفاظ «يَسْتَنْزِهُ» ” پیشاب سے نہیں بچتا تھا ۔“ کی بجائے «يَسْتَتِرُ» ’’پردہ نہ کرتا تھا‘‘ ہیں۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) رسول اللہ ﷺ اللہ عزوجل ہی کے بتانے سے ایسی خبریں دیا کرتے تھے۔ فرمایا: ﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ﴾ (النجم: 4۔3) ’’وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے۔ جو کہتے ہیں وحی ہوتی ہے ان پر نازل کردہ۔‘‘ [اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے، حالانکہ امور غیب کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰٰ ہی جانتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمـٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ﴾(الانعام: 59) ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ﴾(النمل: 27۔65) ’’اے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے۔‘‘ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کی بات پر چاہتا ہے مطلع فرما دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿عـٰلِمُ الغَيبِ فَلا يُظهِرُ عَلىٰ غَيبِهِ أَحَدًا إِلّا مَنِ ارتَضىٰ مِن رَسولٍ فَإِنَّهُ يَسلُكُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ رَصَدًا﴾ (الجن: 72۔ 26،27) ’’(وہی) غیب کی بات جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کردیتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ وَما أَدرى ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ مُبينٌ﴾(الاحقاف: 46،9) ’’ کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں آیا اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو صاف صاف (کھلم کھلا) ڈرانا ہے۔‘‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سےمروی مشہور حدیث میں ہے کہ جب حضرت جبریل نے نبی علیہ السلام سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: [مَا المَسْؤُلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَائِلِ](صحیح البخاری الایمان، باب سؤال جبریل النبی ﷺ عن الایمان.......حدیث :50، صحیح مسلم، الایمان، حدیث:8) ’’ اس کے بارے میں مسؤل کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے۔‘‘‘ پھر آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں ضرور بتلایا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کو بس اتنا علم غیب تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کروا دیا تھا، اسی کے بارے میں آپ ﷺ نے بوقت ضرورت بتایا، غیب کے باقی امور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتایا، ان کے بارے میں آپ ﷺ کو علم نہ تھا] پیشاب سے طہارت حاصل نہ کرنا، یا اس کے چھینٹوں سے نہ بچنا، یا پردہ نہ کرنا یعنی برسرعام پیشاب پاخانہ کرنے کے لیے بیٹھ جانا عذاب قبر کا باعث ہے۔ (3) چغل خوری کو بھی عام سی بات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بھی بہت بڑا گناہ اور عذاب قبر کا باعث ہے۔ (4) رسول اللہ ﷺ کا قبروں پر چھڑیاں رکھنے کا عمل آپ ﷺ ہی سے مخصوص ہے۔ آپ کے بعد صحابہ میں سے کسی نے بھی یہ عمل نہیں کیا، اب جو لوگ کرتے ہیں ایک بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وأبو عوانة في صحاحهم ، وصححه الترمذي) .
إسناده: ثنا زهير بن حرب، وهَناد بن السَّري قالا: ثنا وكيع: ثنا الأعمش قال: سمعت مجاهداً يحدث عن طاوس عن ابن عباس. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه. ثمّ قال أبو داود: قال هناد: يستتر مكان: يستنزه . حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن ابن عباس عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمعناه قال: ... كان لا يستتر من بوله . وقال أبو معاوية: يستنزه ... . والحديث أخرجه النسائي: أخبرنا هنّاد بن السري عن وكيع... به؛ إلا أنه قال: يستنزه مثل رواية زهير.وأخرجه الشيخان وأبو عوانة وبقية الأربعة والبيهقي من طرق كثيرة عن وكيع... به. بعضهم قال: يستنزه ، والبعض: يستتر ، إلا رواية البيهقي فبلفظ: يتوقى ؛ وكذلك هي في المستخرج على الصحيح لأبي نعيم. قال الحافظ: وهي مفسرة للمراد . وتابعه عبد الواحد بن زياد عن الأعمش... به باللفط الأول: أخرجه مسلم والدارمي. ومحمد بن خازم... باللفظ الثاني: عند البخاري. وقد خالف الأعمش: منصور؛ فرواه عن مجاهد عن ابن عباس... بإسقاط طاوس من بينهما. وكذلك رواه البخاري من طريق جرير كما رواه الصنف.
وإيرادهما على الوجهين- دون أي ترجيح- دليل على صحتهما عندهما. ويؤيد ذلك: أن الطيأً لسي رواه (رقم 2646) عن شعبة عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس... مثل رواية جرير عن منصور. وشعبة ثقة حجة؛ فروايته تؤيد أن الأعمش رواه على الوجهين معاً؛ كما قال بعض المحققين المتأخرين.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں کسی بہت بڑی بات میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے۔ رہا یہ شخص! تو یہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور یہ (دوسرا) تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی اسے دو حصوں میں چیرا اور ہر دو قبروں پر ایک ایک کو گاڑ دیا اور فرمایا: ’’امید ہے کہ ان کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔‘‘ هناد کے الفاظ «يَسْتَنْزِهُ» ” پیشاب سے نہیں بچتا تھا ۔“ کی بجائے «يَسْتَتِرُ» ’’پردہ نہ کرتا تھا‘‘ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) رسول اللہ ﷺ اللہ عزوجل ہی کے بتانے سے ایسی خبریں دیا کرتے تھے۔ فرمایا: ﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ﴾ (النجم: 4۔3) ’’وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے۔ جو کہتے ہیں وحی ہوتی ہے ان پر نازل کردہ۔‘‘ [اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے، حالانکہ امور غیب کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰٰ ہی جانتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمـٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ﴾(الانعام: 59) ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ﴾(النمل: 27۔65) ’’اے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے۔‘‘ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کی بات پر چاہتا ہے مطلع فرما دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿عـٰلِمُ الغَيبِ فَلا يُظهِرُ عَلىٰ غَيبِهِ أَحَدًا إِلّا مَنِ ارتَضىٰ مِن رَسولٍ فَإِنَّهُ يَسلُكُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ رَصَدًا﴾ (الجن: 72۔ 26،27) ’’(وہی) غیب کی بات جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کردیتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ وَما أَدرى ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ مُبينٌ﴾(الاحقاف: 46،9) ’’ کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں آیا اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو صاف صاف (کھلم کھلا) ڈرانا ہے۔‘‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سےمروی مشہور حدیث میں ہے کہ جب حضرت جبریل نے نبی علیہ السلام سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: [مَا المَسْؤُلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَائِلِ](صحیح البخاری الایمان، باب سؤال جبریل النبی ﷺ عن الایمان.......حدیث :50، صحیح مسلم، الایمان، حدیث:8) ’’ اس کے بارے میں مسؤل کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے۔‘‘‘ پھر آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں ضرور بتلایا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کو بس اتنا علم غیب تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کروا دیا تھا، اسی کے بارے میں آپ ﷺ نے بوقت ضرورت بتایا، غیب کے باقی امور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتایا، ان کے بارے میں آپ ﷺ کو علم نہ تھا] پیشاب سے طہارت حاصل نہ کرنا، یا اس کے چھینٹوں سے نہ بچنا، یا پردہ نہ کرنا یعنی برسرعام پیشاب پاخانہ کرنے کے لیے بیٹھ جانا عذاب قبر کا باعث ہے۔ (3) چغل خوری کو بھی عام سی بات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بھی بہت بڑا گناہ اور عذاب قبر کا باعث ہے۔ (4) رسول اللہ ﷺ کا قبروں پر چھڑیاں رکھنے کا عمل آپ ﷺ ہی سے مخصوص ہے۔ آپ کے بعد صحابہ میں سے کسی نے بھی یہ عمل نہیں کیا، اب جو لوگ کرتے ہیں ایک بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکہتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(قبر میں مدفون) ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں، ان میں سے یہ شخص تو پیشاب سے پاکی حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا یہ تو یہ چغل خوری میں لگا رہتا تھا‘‘ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے بیچ سے پھاڑ کر دونوں قبروں پر ایک ایک شاخ گاڑ دی پھر فرمایا: ’’جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں شاید ان کا عذاب کم رہے۔‘‘ ہناد نے «يَسْتَنْزِهُ» کی جگہ «يَسْتَتِرُ» ( پردہ نہیں کرتا تھا ) ذکر کیا ہے ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) passed by two graves. He said: Both (the dead) are being punished, but they are not being punished for a major (sin). One did not safeguard himself from urine. The other carried tales. He then called for a fresh twig and split it into two parts and planted one part on each grave and said: Perhaps their punishment may be mitigated as long as the twigs remain fresh. Another version of Hannad has: "One of them did not cover himself while urinating". This version does not have the words: "He did not safeguard himself from urine".