Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From Sleeping)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
201.
سیدنا انس ؓ نے بیان کیا کہ نماز عشاء کی اقامت کہی جا چکی تھی کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ سے کام ہے۔ چنانچہ وہ آپ ﷺ سے سرگوشیاں کرنے لگا۔ حتیٰ کہ قوم کو یا ان میں سے کچھ کو اونگھ آنے لگی۔ اس کے بعد آپ نے نماز پڑھائی اور (سیدنا انس ؓ نے) وضو کرنے کا ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
اقامت اورتکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے‘ دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے‘ نہ امام پر یہ واجب ہےکہ تکبیر کے فوراً بعد اللہ اکبر کہہ کر نمازشروع کردے جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في صحيحهما ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل وداود بن شبيب قالا: ثنا حماد بن سلمة عن ثابت البناني. وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وداود بن شبيب من رجال البخاري؛ لكنه مقرون مع من هو من رجالهما. والحديث أخرجه المصنف في المسائل (ص 318) ... بهذا الإسناد، وأخرجه البيهقي (1/120) من طريق المصنف. وأخرجه مسلم (2/196) ، وأبو عوانة (2/266) ، وأحمد (3/160 و 268) من طرق أخرى عن حماد... به، وليس عند مسلم: ولم يذكر وضوءاً. وتابعه الزهري عن ثابت بلفظ: كانت الصلاة تقام، فيكلم النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرجلُ في حاجة تكون له، فيقوم بينه وبين القبلة، فما يزال قائماً يكلمه، فربما رأيت بعض القوم لَيَنْعَسُ من طول قيام النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ له. أخرجه أحمد (3/161) : ثنا عبد للرزاق: أنا معمر عن الزهرى. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. ورواه الترمذي (518) عن عبد الرزاق... به؛ إلا أنه لم يذكر الزهري؛ وقال: حسن صحيح . وأخرجه البخاري (2/98) ، ومسلم وأبو عوانة، وأحمد (3/129- 130) من طريق عبد العزيز بن صهيب عن أنس... نحوه. وكذلك أخرجه المصنف في المسائل (ص 318) . ئم أخرجه هو، والبخاري، وأحمد (3/114 و 182 و 199 و 205 و 232) من حديث حميد عن أنس... نحوه. ورواه جرير بن حازم عن ئابت... به نحوه؛ ولكنه قال: في صلاة الجمعة! وهو وهم؛ كما يأتي بيانه في الكتاب الآخر (208) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا انس ؓ نے بیان کیا کہ نماز عشاء کی اقامت کہی جا چکی تھی کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ سے کام ہے۔ چنانچہ وہ آپ ﷺ سے سرگوشیاں کرنے لگا۔ حتیٰ کہ قوم کو یا ان میں سے کچھ کو اونگھ آنے لگی۔ اس کے بعد آپ نے نماز پڑھائی اور (سیدنا انس ؓ نے) وضو کرنے کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
اقامت اورتکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے‘ دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے‘ نہ امام پر یہ واجب ہےکہ تکبیر کے فوراً بعد اللہ اکبر کہہ کر نمازشروع کردے جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لوگوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آ گئی، پھر آپ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے نہ امام پر یہ واجب ہے کہ تکبیر کے فورا بعد اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ سونا بیٹھے بیٹھے تھا نہ کہ لیٹ کر جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas (RA) b. Malik reported: (The people) stood up for the night prayer and a man stood up and spoke forth: Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), I have to say something to you. He (the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) entered into secret conversation with him, till the people or some of the people dozed off, ad then he led them in prayer. He (Thabit al-Bunani) did not mention ablution.