Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Praying In The Ka'bah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2027.
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو کعبہ کے اندر جانے سے انکار فرما دیا کیونکہ اس کے اندر بت رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حکم دیا اور انہیں باہر نکال دیا گیا۔ ان میں سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسمعیل ؑ کی تصویریں بھی تھیں جن کے ہاتھوں میں پانسے (قسمت معلوم کرنے کے تیر) دکھلائے گئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ ان پر لعنت کرے، قسم اللہ کی! انہیں خوب علم تھا کہ ان حضرات نے کبھی بھی ان سے پانسے نہیں ڈالے تھے۔“ چنانچہ اس کے بعد آپ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے اور اس کے اطراف اور کونوں میں تکبیریں کہیں۔ پھر آپ ﷺ نکل آئے اور اندر نماز نہیں پڑھی۔
تشریح:
1۔ پانسے کے تیر یوں تھے کہ لکڑیاں سی ہوتیں۔ اور ان میں سے کچھ پر لکھا ہوتا تھا۔ (افعل) کام کرلو۔ اور کچھ پر لکھا ہوا تھا۔ (لاتفعل) مت کرو۔ اورکچھ خالی ہوتی تھیں۔ لوگ کسی اہم سفر یا کام کے موقع پر مجاور کعبہ کے پاس آتے۔ اور اس سے اپنا کام نہ کرنے یا کرنے کے متعلق پوچھتے تو وہ ان لکڑیوں کو ڈبے میں ڈال کرہلاتا اور کوئی ایک نکال کر جواب دیتا۔ کہ کرو یا نہ کرو۔ اگر خالی تیر نکلتا تودوباہ کرتا حتیٰ کہ کوئی جواب نکل آتا۔ سورۃ المائدہ میں ہے۔ (وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ)(المائدہ۔3) یہ بھی حرام ہے۔ کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔دوسری جگہ فرمایا۔ <قرآن> ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)(المائدہ۔90) اے ایمان والو! شراب ۔جوا۔بت ۔پانسے یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پائو 2۔ کعبہ کے اندر نماز پڑھنا حضر ت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے ثابت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کےساتھ نہیں تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کی بھی نفی ہے۔ مگرحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان میں اثبات ہے۔ اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفی کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دعا تکبیر میں دیکھا تو خود بھی ایک طرف اسی عمل میں لگ گئے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے۔ اور انہوں نے دھیان نہیں کیا۔ جبکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کے تمام اعمال کا جائزہ لیتے رہے نیز کمرے میں دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی تھا تو اس لئے بھی صورت حال مخفی رہی۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه في صحيحه ) .إسناده: حدثنا أبو معمر عبد الله بن عمرو بن أبي الحجاج: ثنا عبد الوارث عن أيوب عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وأخرجه البخاري كما يأتي.والحديث أخرجه البخاري (3/367) ... بإسناد المصنف ومتنه.وأخرجه هو (8/13) ، والبيهقي (5/158) ، وأحمد (1/334) من طريق عبد الوارث: ثنا أيوب... به. وقال البيهقي. والقول قول من قال: صلى؛ لأنه شاهد. والذي قال: لم يصل؛ ليس بشاهد .
قلت: وكذا قال البخاري في جزء رفع اليدين .ولدخوله البيت ومَحْوِ الصور شاهد بسند حسن عن جابر، يأتي في اللباس [48- باب في الصور].
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو کعبہ کے اندر جانے سے انکار فرما دیا کیونکہ اس کے اندر بت رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حکم دیا اور انہیں باہر نکال دیا گیا۔ ان میں سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسمعیل ؑ کی تصویریں بھی تھیں جن کے ہاتھوں میں پانسے (قسمت معلوم کرنے کے تیر) دکھلائے گئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ ان پر لعنت کرے، قسم اللہ کی! انہیں خوب علم تھا کہ ان حضرات نے کبھی بھی ان سے پانسے نہیں ڈالے تھے۔“ چنانچہ اس کے بعد آپ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے اور اس کے اطراف اور کونوں میں تکبیریں کہیں۔ پھر آپ ﷺ نکل آئے اور اندر نماز نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ پانسے کے تیر یوں تھے کہ لکڑیاں سی ہوتیں۔ اور ان میں سے کچھ پر لکھا ہوتا تھا۔ (افعل) کام کرلو۔ اور کچھ پر لکھا ہوا تھا۔ (لاتفعل) مت کرو۔ اورکچھ خالی ہوتی تھیں۔ لوگ کسی اہم سفر یا کام کے موقع پر مجاور کعبہ کے پاس آتے۔ اور اس سے اپنا کام نہ کرنے یا کرنے کے متعلق پوچھتے تو وہ ان لکڑیوں کو ڈبے میں ڈال کرہلاتا اور کوئی ایک نکال کر جواب دیتا۔ کہ کرو یا نہ کرو۔ اگر خالی تیر نکلتا تودوباہ کرتا حتیٰ کہ کوئی جواب نکل آتا۔ سورۃ المائدہ میں ہے۔ (وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ)(المائدہ۔3) یہ بھی حرام ہے۔ کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔دوسری جگہ فرمایا۔ <قرآن> ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)(المائدہ۔90) اے ایمان والو! شراب ۔جوا۔بت ۔پانسے یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پائو 2۔ کعبہ کے اندر نماز پڑھنا حضر ت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے ثابت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کےساتھ نہیں تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کی بھی نفی ہے۔ مگرحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان میں اثبات ہے۔ اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفی کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دعا تکبیر میں دیکھا تو خود بھی ایک طرف اسی عمل میں لگ گئے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے۔ اور انہوں نے دھیان نہیں کیا۔ جبکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کے تمام اعمال کا جائزہ لیتے رہے نیز کمرے میں دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی تھا تو اس لئے بھی صورت حال مخفی رہی۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ آئے تو آپ نے کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے حکم دیا تو وہ نکال دیئے گئے، اس میں ابراہیم اور اسماعیل ؑ کی تصویریں بھی تھیں، وہ اپنے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر لیے ہوئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ انہیں ہلاک کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں (ابراہیم اور اسماعیل) نے کبھی بھی فال نہیں نکالا۔“ وہ کہتے ہیں: پھر آپ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے گوشوں اور کونوں میں تکبیرات بلند کیں، پھر بغیر نماز پڑھے نکل آئے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: فال کے ان تیروں پر «’’افعل‘‘،’’لا تفعل‘‘،’’لا شيء‘‘» لکھا ہوتا تھا، ان کی عادت تھی جب وہ سفر پر نکلتے تو اس کو ایک تھیلی میں ڈال کر اس میں سے ایک کو نکالتے، اگر حسن اتفاق سے اس تیر پر «افعل» لکھا ہوتا تو سفر پر نکلتے، اور «لا تفعل» لکھا ہوتا تو سفر کو ملتوی کر دیتے اور اگر «لا شيء» لکھا رہتا تو پھر دوبارہ سب کو ڈال کر نکالتے، یہاں تک کہ «افعل» یا «لا تفعل» نکل آئے، رہی یہ بات کہ ’’آپ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی‘‘ تو یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے علم کی بنیاد پر کہا ہے، ترجیح بلال رضی اللہ عنہ کے بیان کو ہے جنہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abbas said “When the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to Makkah he refused to enter the House (the Ka’bah) for there were idols in it. He ordered to take them out and they were taken out. The statues of Abraham and Isma’il were taken out and they had arrows in their hands. Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said “May Allah destroy them! By Allah, they knew that they never cast lots by arrow. He then entered the House(the Ka’bah) and uttered the takbir (Allah is most great) in all its sides and corners. He then came out and did not pray.