Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Giving At The Time Of Weaning)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2064.
جناب حجاج بن حجاج اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں دودھ پلانے کا حق کس طرح ادا کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک غلام یا لونڈی (لے کر اسے دے دے)۔“ نفیلی نے کہا حجاج بن حجاج، بنو اسلم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ اسی کے لفظ ہیں۔
تشریح:
عربوں میں یہ رواج تھا کہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے قرب وجوار کے دیہاتوں میں اجرت پر بھیج دیا کرتےتھے، علاوہ ازیں وہ مقررہ اجرت کے علاوہ دودہ چھڑانے پر (مرضبعہ) دودھ پلانے والی انا کو کوئی انعام دینا بھی پسند کرتے تھے، اس حدیث میں اسی کا حق مرضعہ کی بابت بیان کیا گیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة الحجاج، وأبوه هو: الحجاج بن مالك الأسلمي) . إسناده: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي: ثنا أبو معاوية. (ح) : وثنا ابن العلاء: ثنا ابن إدريس عن هشام بن عروة عن أبيه عن حجاج بن حجاج...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات؛ غير حجاج بن حجاج الأسلمي، وهو في عداد المجهولين؛ لأنه لم يوثقه غير ابن حبان، ولم يرو عنه غير عروة، ولم يذكر فيه ابن أبي حاتم (1/2/157) جرحاً ولا تعديلا؛ ولذلك لم يوثقه الحافظ في التقريب بل قال فيه: مقبول . يعني : عند المتابعة. ولما لم أجد له متابعاً استجزت إيراده هنا دون الصحيح ؛ وإن صححه من يأتي ذكره، وقال فيه الذهبي في الميزان : صدوق ! فإنه مما لا يساعد عليه صنيعه في عامة من وثقهم ابن حبان ممن لم يرو عنه غير واحد، ولذلك بيّض له الذهبي في الكاشف . والحديث أخرجه الترمذي (1153) ، والنسائي (2/85) ، وابن حبان (1253 و 1254) ، والبيهقي (7/464) ، وأحمد (3/450) من طرق أخرى عن هشام... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . كذا قال. وأشار البيهقي إلى إعلاله بالاضطراب فقال عقبه: وقيل عن عروة عن حجاج بن حجاج بن مالك عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وقيل عنه عن حجاج بن أبي الحجاج عن أبيه. والصواب: الحجاج بن الحجاج عن أبيه. قاله البخاري . ثم رأيت المعلق على مسند أبي يعلى (12/221- 222) قال: إسناده صحيح، حجاج بن حجاج بن مالك الأسلمي... وثقه ابن حبان والع لي، فلا يلتفت مع هذا إلى ما قاله الحافظ ابن حجر في تقريبه مجهول . كذا قال! وفيه ما يأتي. أولاً: الذي وثقه العجلي غير الذي وثقه ابن حبان، فقال العجلي: الحجاج بن الحجاج، مدني تابعي ثقة . ولم يزد. وقال ابن حبان (4/153- 154) : حجاج بن حجاج بن مالك الأسلمي الحجازي، يروي عن أبيه وأبي هريرة. روى عنه عروة بن الزبير .
قلت: وهو صاحب هذا الحديث كما ترى، فيبدو أنه غير الذي وثقه العجلي؛ لأنه لم ينسبه إلى جده، وعلى التفريق بينهما جرى الحفاظ كالبخاري في التاريخ ، وابن أبي حاتم في الجرح ، والمزي في التهذيب ، والحافظ في تهذيبه ، وصنيع المصحح المشار إليه، إما أن يوافقهم على التفريق، فعليه حينئذ أن يثبت أن الموثق من العجلي هو راوي هذا الحديث؛ ودون ذلك خرط القتاد، وإماً أن يخالفهم فما هي الحجة؟! ثانياً: هب أن العجلي وثق هذا الراوي، فذلك لا يقتضي تصحيح حديثه؛ لأنه لم يرو عنه غير عروة، فهو مجهول كما هو معروف في علم المصطلح، والعجلي عند المتتبعين لتوثيقاته، يرون بعض للشبه بينه وبين ابن حبان في التساهل في التوثيق، فكم من راو وثقاه، ومع ذلك فهم مجهولون عند النقاد! فلا بد أن يقترن معهما ما يؤيد توثيقهما من توثيق إمام آخر ناقد، أو يكون مشهوراً بكثرة الرواة عنه. والله أعلم. ثالثاً: الحافظ: لم يقل فيه: مجهول بل: مقبول . وإنما قال مجهول في الأسلمي الآخر.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
جناب حجاج بن حجاج اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں دودھ پلانے کا حق کس طرح ادا کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک غلام یا لونڈی (لے کر اسے دے دے)۔“ نفیلی نے کہا حجاج بن حجاج، بنو اسلم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ اسی کے لفظ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
عربوں میں یہ رواج تھا کہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے قرب وجوار کے دیہاتوں میں اجرت پر بھیج دیا کرتےتھے، علاوہ ازیں وہ مقررہ اجرت کے علاوہ دودہ چھڑانے پر (مرضبعہ) دودھ پلانے والی انا کو کوئی انعام دینا بھی پسند کرتے تھے، اس حدیث میں اسی کا حق مرضعہ کی بابت بیان کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حجاج ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! دودھ پلانے کا حق مجھ سے کس طرح ادا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لونڈی یا غلام (دودھ پلانے والی کو خدمت کے لیے دے دینے) سے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hajjaj ibn Malik al-Aslami (RA): I asked: Apostle of Allah (ﷺ), what will remove from me the obligation due for fostering a child? He said: A slave or a slave-woman.