Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: On Pre-Seminal Fluid (Madhi))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
210.
سیدنا سہل بن حنیف ؓ کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی اور اس بنا پر غسل بھی بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا، لہٰذا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے تمہیں وضو ہی کافی ہے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور جو میرے کپڑے کو لگ جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”جہاں تو محسوس کرے کہ کپڑے کو لگی ہے وہاں پانی کا ایک چلو لے کر چھڑک لیا کر، یہی کافی ہے۔“
تشریح:
اس سے معلوم ہوا کہ مذی کے نکلنے سے وضو تو ٹوٹ جائےگا۔ لیکن کپڑے کو دھونا ضروری نہیں، بلکہ اس جگہ پر چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: يا رسول الله! فكيف بما يُصيب ثوبي منه؟ قال: يكفيك بأن تأخذ كفّاً من ماء؛ فتنضح بها من ثوبك حيث ترى أنه أصابه . (قلت: إسناده حسن. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان (1100) في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا مسدد قال: ثنا إسماعيل- يعني: ابن إبراهيم- قال: نا محمد بن إسحاق قال: حدثني سعيد بن عُبَيْدِ بن السباق عن أبيه عن سهل بن حُنَيْف. وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات؛ غير اين إسحاق، وهو حسن الحديث؛ وقد صرّح بالتحديث. والحديث أخرجه أحمد (3/485) : قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم... به. وأخرجه للبيهقي (2/410) من طريق المؤلف. وأخرجه الترمذي وابن ماجه، والطحاوي (1/28) ، وابن حزم (1/106- 107) من طرق عن ابن إسحاق... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح 0 ورواه ابن خزيمة يعني في صحيحه ؛ كما في الفتح، (1/302)
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا سہل بن حنیف ؓ کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی اور اس بنا پر غسل بھی بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا، لہٰذا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے تمہیں وضو ہی کافی ہے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور جو میرے کپڑے کو لگ جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”جہاں تو محسوس کرے کہ کپڑے کو لگی ہے وہاں پانی کا ایک چلو لے کر چھڑک لیا کر، یہی کافی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ مذی کے نکلنے سے وضو تو ٹوٹ جائےگا۔ لیکن کپڑے کو دھونا ضروری نہیں، بلکہ اس جگہ پر چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن حنیف ؓ کہتے ہیں کہ مجھے مذی سے بڑی تکلیف ہوتی تھی، باربار غسل کرتا تھا، لہٰذا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس میں صرف وضو کافی ہے۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کپڑے میں جو لگ جائے اس کا کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک چلو پانی لے کر کپڑے پر جہاں تم سمجھو کہ مذی لگ گئی ہے چھڑک لو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl ibn Hunayf: I felt greatly distressed by the frequent flowing of prostatic fluid. For this reason I used to take a bath very often. I asked the apostle of Allah (ﷺ) about this. He replied: Ablution will be sufficient for you because of this. I asked: Apostle of Allah (ﷺ), what should I do if it smears my clothes. He replied: It is sufficient if you take a handful of water and sprinkle it on your clothe when you find it has smeared it.