باب: (مباشرت کےموقع پر) اگر جذبات ٹھنڈے ہوجائیں...؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Intercourse Without Ejaculation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
214.
سیدنا ابی بن کعب ؓ نے ان (سہل بن سعد) کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اول اسلام میں اس بات کی رخصت دی تھی (کہ انزال نہ ہونے پر غسل نہ کیا جائے) کیونکہ لوگوں کے پاس کپڑے کم ہوتے تھے، مگر اس کے بعد غسل کرنے کا حکم دے دیا تھا اور اس (پہلی رخصت) سے منع کر دیا تھا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں، راوی کی مراد (اسلام کا پہلا حکم) ہے کہ ”پانی سے پانی لازم آتا ہے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذا قال النووي، وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . ورواه ابن خزيمة وابن حبان (1170) في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح قال: ثنا ابن وهب قال: أخبرني عمرو- يعني: ابن الحارث- عن ابن شهاب قال: ثني بعض مَنْ أرضى: أن سهل بن سعد الساعدي أخبره أن أبي بن كعب أخبره. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ غير شيخ ابن شهاب الذي فيه؛ فإنه لم يسمه؛ ولكنه قد رضيه الزهري، وما نظن أنه يرضيه غير ذي ثقة وحفظ. ومع ذلك؛ فقد ساقه المولف- فيما بعد- من طريق أبي حازم عن سهل بن سعد. ولذلك قال ابن خزيمة- كما في التلخيص (2/122) -: هذا الرجل الذي لم يسمّه الزهري: هو أبو حازم- ثم ساقه من طريقه؛ كما يأتي في الكتاب -؛ وقد وقع في رواية لابن خزيمة من طريق معمر عن الزهري: أخبرني سهل... فهذا يدفع قول من جزم بأنه لم يسمعه منه؛ لكن قال ابن خزيمة: أهاب أن تكون هذه اللفظة غلطاً من محمد بن جعفر؛ الراوي له عن معمر. قلت: أحاديث أهل البصرة عن معمر يقع فيها الوهم، لكن في كتاب ابن شاهين من طريق مُعَلى بن منصور عن ابن المبارك عن يونس عن الزهري: حدثني سهل. وكذا أخرجه بقي بن مخلد في مسنده عن أبي كريب عن ابن المبارك. وق ل ابن حبان: يحتمل أن يكون الزهري سمعه من رجل عن سهل، ثم لقي سهلاً فحدثه به، أو سمعه من سهل ثم ثبته فيه أبو حازم . والحديث أخرجه الترمذي (1/183- 184) ، والدارمي (1/194) ، وابن ماجه (1/211- 212) ، والبيهقي (1/165) ، وأحمد (5/115- 116) من طرق عن الزهري عن سهل بن سعد ... به. وهو- عند الترمذي والبيهقي ورواية لأحمد- عن ابن المبارك عن يونس عنه. وعند ابن ماجه وأحمد أيضا من طريق عثمان بن عمر: أنا يونس... به. وكذلك رواه ابن جريج وشعيب عن الزهري: قال سهل. فيظهر أن من قال فيه : ثني سهل ؛ فقد شذ. والله أعلم. ثم قال الترمذي: حديث حسن صحيح . ثم أخرجه أحمد من طريق رِشْدين: حدثني عمرو بن الحارث... به مثل رواية الكتاب. وأخرجه البيهقي من طريق المؤلف.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابی بن کعب ؓ نے ان (سہل بن سعد) کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اول اسلام میں اس بات کی رخصت دی تھی (کہ انزال نہ ہونے پر غسل نہ کیا جائے) کیونکہ لوگوں کے پاس کپڑے کم ہوتے تھے، مگر اس کے بعد غسل کرنے کا حکم دے دیا تھا اور اس (پہلی رخصت) سے منع کر دیا تھا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں، راوی کی مراد (اسلام کا پہلا حکم) ہے کہ ”پانی سے پانی لازم آتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہو گا) پھر آپ ﷺ نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نهى عن ذلك» یعنی ممانعت سے مراد «الماء من الماء» (غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ubayy b. Ka’b (RA) reported: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) made a concession in the early days of Islam on account of the paucity of clothes that one should not take a bath if one has sexual intercourse (and has no seminal emission). But later on her commanded to take a bath in such a case and prohibited its omission.