باب: (مباشرت کےموقع پر) اگر جذبات ٹھنڈے ہوجائیں...؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Intercourse Without Ejaculation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
215.
سیدنا ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ وہ فتویٰ جو لوگ دیا کرتے تھے کہ ”پانی، پانی سے (لازم آتا) ہے“ ایک رخصت تھی جس کی رسول اللہ ﷺ نے ابتدائے اسلام میں اجازت دی تھی لیکن اس کے بعد غسل کا حکم ارشاد فرمایا۔
تشریح:
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں زوجین کے لیے اجازت تھی کہ مباشرت کےموقع پر اگرانزال نہ ہو توغسل واجب نہیں۔ اس کیفیت کوایک بلیغ انداز میں بیان فرمایا: ’’پانی پانی سے (لازم آتا)ہے۔‘‘ یعنی غسل کا پانی منی کا پانی نکلنے ہی پر لازم آتاہے، مگریہ حکم منسوخ ہوگیا اور فرمایا: ’’ختنہ ختنے سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘ جیسے کہ درج ذیل احادیث میں ذکر آرہا ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا الفاظ اور احکام اب احتلام کی صورت کےساتھ مخصوص ہوگئےہیں۔ یعنی اگر خواب میں کچھ دیکھا ہو اور جسم یا کپڑوں پر تری اور اثر نمایاں ہو یا کسی اور صورت میں منی کا اخراج ہوتوغسل واجب ہوگا ورنہ نہیں۔ البتہ بیوی سے ہم بستری کرنے کے بعد ہرصورت میں غسل واجب ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقال الاسماعيلي: صحيح على شرط البخاري ، وصححه ابن خزيمة وابن حبان (1176) والبيهقي، وقال الحافظ: هو إسناد صالح لأن يحتج به ، وصححه الدارقطني أيضا وأبو حاتم الرازي؛ حيث جعله ناسخالحديث أبي سعيد الخدري الأتي (رقم 211) ) . إسناده: حدثنا محمد بن مهران البزاز الرازي قال: ثتا مُبشر الحلبي عن محمد أبي غسان عن أبي حازم عن سهل بن سعد قال: ثني أُبي بن كعب. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات أثبات من رجال الشيخين. والحديث أخرجه بهذا الإسناد: الدارمي (1/194) ، وابن خزيمة في صحيحه - كما سبق في الذي قبله-، وابن حبان أيضا في صحيحه - كما في نصب الراية (1/83) -. وأخرجه البيهقي (1/166) من طريق المؤلف، ومن طريق موسى بن هارون: ثنا محمد بن مهران الجمال... به. وقال: إسناد صحيح موصول . وقال الحافظ في الفتح (1/316) : صححه ابن خزيمة وابن حبان. وقال الإسماعيلي: هو صحيح على شرط البخاري. كذا قال؛ وكأنه لم يطلع على علته، فقد اختلفوا في كون الزهري سمعه من سهل. نعم؛ أخرجه أبو داود وابن خزيمة أيضا من طريق أبي حازم عن سهل، ولهذا الإسناد أيضا علة أخرى ذكرها ابن أبي حاتم. وفي الجملة؛ هو إس اد صالح لأن يحتج به . قلت: وممن صححه أيضا: الدارقطني، فقال بعد أن أخرجه (ص 46) من الطريقين عن محمد بن مهران-: صحيح . والعلة التي أشار إليها الحافظ؛ لعلها قول ابن أبي حاتم في العلل (1/41/ رقم 86) : سمحت أبي قال: ذكرت لأبي عبد الرحمن الحبلي ابن أخي الإمام- وكان يفهم الحديث- فقلت له: تعرف هذا الحديث [ قلت: فذكره بإسناد المصنف]؟ فقال لي: قد دخل لصاحبك حديث في حديث؛ ما نعرف لهذا الحديث أصلاً إ! وهذا توهيم للثقات بدون حجة؛ فلا يقبل. ولذلك لم يجعلها الحافظ علة قادحة، فصرح بأن الحديث صالح يحتج به؛ بل أرى أن أبا حاتم نفسه لم يرفع إليها رأساً، فقد قال ابنه فيما بعد (رقم 114) : سمعت أبي وذكر الأحاديث المروية في: الماء من الماء فقال: هو منسوخ، نسخه حديث سهل بن سعد عن أبي بن كعب . فلو لم يكن الحديث عنده صحيحاً؛ لما جعله ناسخاً، وهذا واضح والحمد لله.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ وہ فتویٰ جو لوگ دیا کرتے تھے کہ ”پانی، پانی سے (لازم آتا) ہے“ ایک رخصت تھی جس کی رسول اللہ ﷺ نے ابتدائے اسلام میں اجازت دی تھی لیکن اس کے بعد غسل کا حکم ارشاد فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں زوجین کے لیے اجازت تھی کہ مباشرت کےموقع پر اگرانزال نہ ہو توغسل واجب نہیں۔ اس کیفیت کوایک بلیغ انداز میں بیان فرمایا: ’’پانی پانی سے (لازم آتا)ہے۔‘‘ یعنی غسل کا پانی منی کا پانی نکلنے ہی پر لازم آتاہے، مگریہ حکم منسوخ ہوگیا اور فرمایا: ’’ختنہ ختنے سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘ جیسے کہ درج ذیل احادیث میں ذکر آرہا ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا الفاظ اور احکام اب احتلام کی صورت کےساتھ مخصوص ہوگئےہیں۔ یعنی اگر خواب میں کچھ دیکھا ہو اور جسم یا کپڑوں پر تری اور اثر نمایاں ہو یا کسی اور صورت میں منی کا اخراج ہوتوغسل واجب ہوگا ورنہ نہیں۔ البتہ بیوی سے ہم بستری کرنے کے بعد ہرصورت میں غسل واجب ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب ؓ نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ جو یہ فتوی دیا کرتے تھے کہ پانی، پانی سے (لازم آتا) ہے (یعنی منی کے انزال ہونے پر ہی غسل واجب ہوتا ہے) یہ رخصت رسول اللہ ﷺ نے ابتدائے اسلام میں دی تھی پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے غسل کرنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں زوجین کے لیے اجازت تھی کہ مباشرت کے موقع پر اگر انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں۔ اس کیفیت کو ایک بلیغ انداز میں بیان فرمایا: ”پانی پانی سے (لازم آتا) ہے۔“ یعنی غسل کا پانی منی کا پانی نکلنے ہی پر لازم آتا ہے، مگر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور فرمایا: ”ختنہ ختنے سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔“ جیسے کہ اگلی حدیث ۲۱۶ میں ذکر آ رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ubayy b. Ka’b (RA) said: The verdict that water (bath) is necessary when there is emission given by the people (in the early days of Islam) was due to the concession granted by the Messenger of Allah in the beginning of Islam. He then commanded to take a bath (in such a case). Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: By Abu Ghassan is meant Muhammad b. mutarrif.