باب: ان حضرات کی دلیل جو بچے کے متعلق تنازع میں قرعہ سے فیصلے کے قائل ہیں
)
Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Those Who Said That Lots Should Be Drawn If They Differ About The Child)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2270.
سیدنا زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ کے پاس تین آدمیوں کا معاملہ لایا گیا جبکہ وہ یمن میں عامل تھے، وہ تینوں ایک عورت پر ایک طہر میں واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے دو سے پوچھا کیا تم اس تیسرے کے لیے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں! حتیٰ کہ انہوں نے سب سے پوچھا۔ جب بھی دو سے پوچھتے، وہ نفی میں جواب دیتے تو انہوں نے ان میں قرعہ ڈالا اور بچہ اس کو دے دیا جس کے نام کا قرعہ نکلا اور اس پر دو تہائی دیت بھی لازم کر دی۔ چنانچہ یہ واقعہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ اس پر ہنسے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔
تشریح:
جہاں کہیں کسی معاملے کے دو پہلوبرابر ہوں اور کوئی جانب واضح طور پر راجح معلوم نہ ہوتی ہو تو قرعہ سے فیصلہ کرنا جائز ہے جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا یا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں رفاقت کے لیے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ میں قرعہ ڈال لیا کرتے تھے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال ابن حزم، وتبعه ابن القيم) . إسناده: حدثنا خُشَيْشُ بن أصْرَمَ: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا الثوري عن صالح الهَمْدَاني عن الشعبي عن عبد خَيْر عن زيد بن أرقم.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير عبد خير، وهو ثقة. ومثله خشيش بن أصرم، وقد توبع كما يأتي. والحديث أخرجه النسائي (2/107- 108) ... بإسناد المصنف ومتنه. وأخرجه ابن ماجه (2/59) : حدثنا إسحاق بن منصور: أنبأنا عبد الرزاق... به. وهو في المصنف (13472) . وعلقه البخاري عليه في التاريخ (3/1/79) . وخالفهم أحمد فقال (4/373) : ثنا عبد الرزاق: ثنا سفيان عن أجلح عن الشعبي... به. فجعل (الأجلح) مكان: (صالح الهمداني) ؛ فكأنه سلك الجادة؛ فإن الأجلح هو المعروف برواية هذا الحديث عن الشعبي؛ لكن عنه عن عبد الله بن الخليل، كما في الطريق الأولى من رواية جمع عنه. أما من رواية سفيان الثوري عن أجلح عن الشعبي عن عبد خير؛ فلم أره إلا في رواية أحمد هذه عن عبد الرزاق؛ فإن كانت محفوظة فهي متابعة قوية من الأجلح لصالح الهمداني عن الشعبي. والأرجح أن للشعبي شيخين: أحدهما: عبد الله بن الخليل: رواه الجماعة عن الأجلح عنه. والثاني: عبد خير؛ كما في رواية الجماعة عن عبد الرزاق عن الثوري عن صالح الهمداني عنه. ويؤيده: أنني وجدت له شيخاً ثالثاً، فقال الحميدي في مسنده (786) : ثنا سفيان قال: ثنا أبو سهل عن الشعبي عن علي بن ذَرِيح عن زيد بن أرقم عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... بمثله. لكن أبو سهل هذا ضعيف؛ واسمه: محمد بن سالم الهَمْداني. وعلي بن ذريح: لم أعرفه! ولم يذكره الحافظ المزي في الرواة عن زيد بن أرقم، ولا في شيوخ الشعبي من التهذيب ! والله تعالى أعلم. وخالفهم جميعاً سَلَمَة بن كهَيْل فقال: عن الشعبي عن الخليل عن ابن الخليل قال ... فذكر الحديث موقوفاً على علي مرسلاً مختصراً. هكذا أخرجه المصنف من طريق عبيد الله بن معاذ: ثنا أبي: ثنا شعبة عنه. وأخرجه النسائي (2/108) من طريق محمد- وهو ابن جعفر غُنْدَرٌ -: حدثنا شعبة... به؛ إلا أنه قال: عن أبي الخليل- أو ابن أبي الخليل-... فذكره، وقالا: ولم يذكر: زيد بن أرقم، ولم يرفعه ، وقال: هذا صواب ! كذا قال! ومثله قول ابن أبي حاتم في العلل (1/402) - بعد أن ذكره من طريق الأجلح المسندة المرفوعة-: فقال أبي: قد اختلفوا في هذا الحديث فاضطربوا، والصحيح حديث سلمة ابن كهيل !
قلت: كان يكون الأمر كما ذكر هو والنسائي؛ لو أن الأجلح كان وحده في مقابلة سلمهّ. أما وقد تابعه صالح الهمداني فأسنده ورفعه، ولو أنه خالفه في تابعي الحديث؛ فلا أرى ما رَأيَا، لا سيما وأن سلمة قد اختلف عليه في ضبط اسم عبد الله بن الخليل كما رأيت، فلا أرى الصواب إلا المسند المرفوع ! ولذلك أوردت هذا الموقوف في الكتاب الآخر (391) . والله أعلم.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
سیدنا زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ کے پاس تین آدمیوں کا معاملہ لایا گیا جبکہ وہ یمن میں عامل تھے، وہ تینوں ایک عورت پر ایک طہر میں واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے دو سے پوچھا کیا تم اس تیسرے کے لیے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں! حتیٰ کہ انہوں نے سب سے پوچھا۔ جب بھی دو سے پوچھتے، وہ نفی میں جواب دیتے تو انہوں نے ان میں قرعہ ڈالا اور بچہ اس کو دے دیا جس کے نام کا قرعہ نکلا اور اس پر دو تہائی دیت بھی لازم کر دی۔ چنانچہ یہ واقعہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ اس پر ہنسے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔
حدیث حاشیہ:
جہاں کہیں کسی معاملے کے دو پہلوبرابر ہوں اور کوئی جانب واضح طور پر راجح معلوم نہ ہوتی ہو تو قرعہ سے فیصلہ کرنا جائز ہے جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا یا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں رفاقت کے لیے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ میں قرعہ ڈال لیا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ارقم ؓ کہتے ہیں کہ علی ؓ کے پاس یمن میں تین آدمی (ایک لڑکے کے لیے جھگڑا لے کر) آئے جنہوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس طرح آپ نے سب سے دریافت کیا، اور سب نے نفی میں جواب دیا، چنانچہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور جس کا نام نکلا اسی کو لڑکا دے دیا، نیز اس کے ذمہ (دونوں ساتھیوں کے لیے) دو تہائی دیت مقرر فرمائی، رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب اس کا تذکرہ آیا تو آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zayd ibn Arqam (RA): Three persons were brought to 'Ali (RA) when he was in the Yemen. They had sexual intercourse with a woman during a single state of purity. He asked two of them: Do you acknowledge this child for this (man)? They replied: No. He then put this (question) to all of them. Whenever he asked two of them, they replied in the negative. He, therefore, cast a lot among them, and attributed the child to the one who received the lot. He imposed two-third of the blood-money (i.e. the price of the mother) on him. This was then mentioned to the Prophet (ﷺ) and he laughed so much that his molar teeth appeared.