باب: تین طلاق یافتہ ( طلاق بتہ والی ) کے خرچ کے احکام و مسائل
)
Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Regarding The Maintenance Of One Who Has Been Irrevocably Divorced)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2286.
سیدہ فاطمہ بنت قیس ؓ نے بیان کیا کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی نے اس کو تین طلاقیں دے دیں۔ اور حدیث بیان کی اور خالد بن ولید کی بات بھی۔ کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے خرچہ نہیں ہے اور نہ کوئی سکنی ہے۔“ (شوہر کے ذمے نہیں ہے۔) اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے بارے میں میرے مشورے کے بغیر جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کر لینا۔
تشریح:
1: نکاح اور دیگر اہم معاملات میں صالح اور مخلص اہل نظر سے مشورہ ضرور کرلینا چاہیے۔ ایسے ہی استخارہ بھی لازماکرنا چاہیے۔ 2: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ کے شوہر کا نام اکثر روایات میں ابو حفصبن مغیرہ آیا ہے اور کچھ میں یوں ابو عمروبن حفص بن مغیرہ۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا أبان بن يزيد العطار: حدثني يحيى ابن أبي كثير: حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن أن فاطمة بنت قيس حدثته.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين مسلسل بالتحديث. والحديث أخرجه مسلم (4/196) من طريق شيبان عن يحيى بن أبي كثير... الحديث بتمامه؛ وفيه قوله في الرواية الآتية: لا تسبقيني بنفسك .
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
سیدہ فاطمہ بنت قیس ؓ نے بیان کیا کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی نے اس کو تین طلاقیں دے دیں۔ اور حدیث بیان کی اور خالد بن ولید کی بات بھی۔ کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے خرچہ نہیں ہے اور نہ کوئی سکنی ہے۔“ (شوہر کے ذمے نہیں ہے۔) اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے بارے میں میرے مشورے کے بغیر جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کر لینا۔
حدیث حاشیہ:
1: نکاح اور دیگر اہم معاملات میں صالح اور مخلص اہل نظر سے مشورہ ضرور کرلینا چاہیے۔ ایسے ہی استخارہ بھی لازماکرنا چاہیے۔ 2: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ کے شوہر کا نام اکثر روایات میں ابو حفصبن مغیرہ آیا ہے اور کچھ میں یوں ابو عمروبن حفص بن مغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ بنت قیس ؓ نے بیان کیا کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی ؓ نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور خالد بن ولید ؓ والا قصہ بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”نہ تو اس کے لیے نفقہ ہے اور نہ رہائش۔“ نیز نبی اکرم ﷺ نے اسے یہ خبر بھیجی کہ تو اپنے بارے میں مجھ سے سبقت نہ کرنا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی مجھ سے پوچھے بغیر شادی نہ کر لینا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Salamah reported on the authority of Fatimah daughter of Qais that Abu ‘Amr bin Hafs Al Makhzumi divorced her three times. He then narrated the rest of the tradition. He then mentioned about Khalid bin Walid and said that the Prophet (ﷺ) said “There are no maintenance and dwelling for her”. This version has “The Apostle of Allah (ﷺ) sent a message to her “Do not give her consent for marriage without my permission”.